Search This Blog

Showing posts with label اُردو. Show all posts
Showing posts with label اُردو. Show all posts

Monday, April 26, 2021

قابلِ عزت ٹیچرز مئیرٹ تقرری

قابلِ عزت ٹیچرز مئیرٹ تقرری


 ان تمام نقادوں کی خدمت میں پیش خدمت جو کسی پروسیجر کی الف ب نہیں جانتے اور نقادی کا شغل جھاڑتے ہوئے ٹیچرز پر سفارشی بھرتیوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔


سب سے پہلے تو حکومت پنجاب کی جانب  سے باقاعدہ اس سال کہ بھرتی کی پالیسی ایشو ہوئی تھی۔

اس تفصیلی پالیسی میں تمام کیڈرز کی اپائنٹمنٹ پروسیجر و کرائیٹیریا مختص تھا۔

ساتھ جلی حروف میں مینشن تھا۔

'خالصتََا میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہو گی"۔


الْحَمْدُ الِلَّهِ

تمام قابلِ عزت ٹیچرز ٹف میرٹ کمپئیٹ کر کے میرٹ پر اپوائنٹ ہوئے ہیں۔


ہر ضلع نے اپنی ضلعی Vacancies کے مطابق باقاعدہ اخبار پر اشتہارات پبلش کروائے تھے۔

تمام پروسیجر کا ٹائم لائن مختص کیا گیا تھا۔

 اور NTS web پر Application Form اور  Test Content Update ہوا تھا۔

ٹیچرز نے NTS Web پر آنلائن اپلائی کیا تھا۔ 

فارم پرنٹ آؤٹ کر کے بھیجے تھے۔ 

پھر NTS Web پر رولنمبر سلپس اپ لوڈ ہوئیں۔

وہ پرنٹ آؤٹ لیکر امتحانی سینٹر پہنچے تھے۔۔


ہم بھی اس وقت پرائمری ٹیچر تھے۔ کیا شاندار دور تھا۔ ایک کلاس بھی فری نہیں ہوتی تھی۔ 60-70 بچوں کی اوور کراؤڈڈ کلاس۔ ٹیچرز کی تعداد کم۔ تعداد کی وجہ سے سبجیکٹس کے مطابق 6 پیریڈز کا ٹائم ٹیبل بنایا۔ 2 پیریڈز میں 60-70 طلباء کی اوور کراؤڈڈ 2-2 کلاسز سبھالتے تھے۔ لنڈے کے ارسطو نقادی جھاڑتے ہیں کہ گورنمنٹ ٹیچرز مفت کی بٹور رہے ہیں۔ پڑھاتے نہیں ہیں۔ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔ 


پھر ہماری فلی ائیر کنڈیشنڈ کلاس رومز تھیں۔

درختوں کے گھنی چھاؤں تلے اور سورج کے ساتھ ساتھ ہماری موومنٹ بھی بڑھتی رہتی۔ بچے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسے طاق ہو چکے تھے کہ گھنٹی بجتے ہی مانئیٹرز کی کمانڈ میں مارچ شروع کر کے درختوں کی گھنئیری چھاؤں میں ڈیرے جما لیتے تھے۔ 


سردیوں، جاڑے، کُہر و دُھند میں خیر ہیٹر کا بندوبست نہ ہوتا تھا۔ کُہر و دُھند میں جب گلوز میں بھی ہاتھ یخ ہو جاتے تھے۔ ایسے شدید ترین موسم میں نیلگون امبر تلے اوپن ائیر کلاس رومز میں طالبعلم کُہر و دھند کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی فیضیاب ہوتے تھے۔ خیر وقت و ماحول کے ساتھ ساتھ انسان مطابقت کر ہی لیتا۔ اس کے حل کے طور پر میری ساری فورس ان کے کمانڈوز میرے پہنچتے ہی فورا کاروائی رپورٹ پیش کرتے۔ 

استاد جی آج کے دن کا اسلحہ ڈپو میں جمع ہو گیا ہے۔

درختوں کے گرے سوکھے پتے، ٹوٹی شاخیں، ٹہنیاں، گھاس پھونس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر اس کو جلانے کے بعد دائرہ بنا کر اس کے گرد دن کا آغاز ہوتا۔۔۔۔اور وقتا فوقتا اس کو بڑھکا کر کچھ موسم کی سختی کا مقابلہ کرنے کی ہمت آ ہی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ 


خیر میرا سروس میکہ تھا۔

پرسکون اسٹیشن

شاندار ماحول

Best Atmosphere to Teach

ایچ ایم زندہ دل، خوش مزاج و حقیقی معنوں میں فیملی کے سربراہ تھے۔ بہترین کوآرڈینیٹر و لیڈر جو ہر مشکل میں خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیتے تھے۔ جو تمام فیملی کو ایک مٹھی کی مانند جوڑے رکھتا ہے۔ گرم و سرد حالات حالات سے بچائے رکھتا ہے۔ 

انتہائی محنتی، قابل، دوستانہ، مشفق و مہربان کولیگز، ہر ایک معاملے پر چھتری بن جانے والے سینئرز و باقی کولیگز۔ فیملی جیسا ماحول تھا۔ جس کی بدولت یہ حالات کچھ خاص معنی نہ رکھتے تھے۔ 

باتوں ہی باتوں میں سروس میکے کا سلسلہ چل نکلا۔ سسرال میں چائے جتنا مرضی آرام سکھ و آسائش ہو لیکن ہا ہ ہ ہ ئے وہ میکے کی چاشنی و دلفریبی و سکھ کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔

رنگوں میں اک رنگ گلابی

آنچل، چہرہ، ہونٹ، گلابی

ہائے اب کیا کہیں؟ 

کیسے کہیں؟

کیسے بتائیں؟

جیسے ہی سوالیہ کاپیاں کمرے میں آئیں۔

ٹاپ پہ پڑی مسحور کُن و دلفریب ‎پنک کاپی کو دیکھ کے ٹیسٹ کی ساری Tension، کلفت و تھکان جھٹ سے رفو ہو گئی (مجال ہے جو ٹیسٹ کے لئے زرا سی کوئی کتاب کھول کے پڑھنے کی زحمت گوارا کی تھی) 

لبوں پہ بے اختیار مسکراہٹ بکھر گئی. 

طبیعت میں شگفتگی بکھر گئی. 

جاڑے میں کھڑکیوں سے اترتی نرم نرم روپیلی دھوپ کی تمازت میں نکھری نکھری پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔پنک کاپی نے چاروں اور قوس وقزع کے رنگ بکھیر دئیے۔۔۔۔۔ہمیں بالاخر پنک کاپی مل گئی۔۔۔۔۔جسکی بدولت 2015ء میں ESE اپوائنٹ ہوئے۔ پھر اب SESE.......... 


خیر اس کے بعد اپنے دوسرے NTS TEST جو کہ SSE کیلئے تھا۔ ہم ایک دفعہ پھر سے کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔ بار بار نظریں گلابی کاپی کی اور جا کر گھڑی کی سوئیوں پہ رک جاتی تھیں۔ جو منہ چڑا رہی تھیں کہ ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے خیر خدا خدا کرکے وقت سست روی سے سرکنا شروع ہوا۔ وہ لمحہ آن پہنچا جب ایگزمنر صاحب اٹھے و کاپیاں تھامیں۔ دل کی ہر 1 دھڑکن پکار رہی تھی۔ پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔!

ایک ایک کرکے تمام Candidates کو Examiner صاحب کاپیاں تھمائے جا رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو ہمیں تھمائی گئی Yellow Copy ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نےبادل نخواستہ کاپی تھامی۔ کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آرہی تھی۔ بس خشمگین نگاہوں سےایگزامنر صاحب کو تکتے رہے۔ کچھ توقف کے بعد اوسان کچھ بحال ہوئے تو ایگزامنر صاحب سے دکھی دل سے Request کی کہ سر پنک کاپی مل سکتی ہے۔ حسب توقع ایگزامنر صاحب نے مسند ایگزامنر پہ براجمان ہونے و ہمارا صنفِ کرخت ہونے کی سبب فورا رد کیا اور فرمان جاری کیا۔ 

کہ جو مل چکی یے اسے ہی حل کریں۔

(کیا پتا اگر ‎صنفِ کرخت نگران کے بجائے کوئی صنفِ نازک نگران ہوتی تو ہماری سوالیہ شکل و التجائیہ لہجے سے متاثر ہو کے مُسکان بکھیر کے پنک کاپی تھما دیتیں) 

بعد میں سب سے آنکھ بچا کے پھر ریکویسٹ کی جو Candidate آج کے دن Absent ہیں۔ اس میں سے کسی کی پنک کاپی عنایت فرما کر دلیِ تشکر و ممنون ہونے کا موقع عنایت فرمائیں۔ 

لیکن جواب ندارد۔

خیر دل کےارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!

بار بار نگاہیں بے اختیار پنک کاپی تھامے خوش نصیبوں کی طرف اٹھتیں۔ دل سے ہوک اٹھتی و ہم دکھی دل سے دھیان اپنی پیلو کاپی میں کھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

آسمان کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا

دھیان میں ہے چہرہ ایک مہتابی سا

اب اس کا اثر یہ ہوا۔

کہ ہم UC Marks سے نوازنے والوں کی لسٹ میں نہیں تھے۔ لہذا میرٹ پر ہونے کے باوجود UC Marks نہ ہونے کی بدولت میرٹ سے آؤٹ کر دئیے گئے۔ خیر قسمت میں دانا پانی اسی کیڈر کا لکھا تھا۔۔۔۔۔

اس پاک زات کا بصد شکر وہ جس حال میں بھی رکھیں۔ 


پھر اوریجنل کاپی ہم سے لیکر کاربن کاپی ہمیں تھما دی گئی تھی۔ 

 

شام کے وقت NTS web پر Keys اپ لوڈ ہوئیں. کاربن کاپی تھامی دل کی بے ترتیب ہوئی دھڑکنوں کو پھیلتی سراسیمگی کو سنبھالا۔ ٹھنڈے پانی کے 2-3 گلاس پئیے۔ کینز کے مطابق اسکورنگ کرتے سانسیں اٹک رہی تھی۔ Heart Beat بڑھ رہی تھی۔ Pulse Rate اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ بالاخر اسکورننگ مکمل ہوئی۔ پرسکون ہوئے کہ مارکس اچھے تھے میرٹ میں مقابلہ ہو سکتا ہے۔

 

کچھ وقت کے بعد NTS Web پر رزلٹ Upload ہوا تھا۔ 

 

پھر بائی ڈاک ہمیں DMC بھیجی گئیں۔ 

 

ایپلیکیشن فارم، ڈگریوں و سروس ریکارڈ کی مصدقہ نقول، ڈیپارٹمنل کوڈل فارمیلٹیز کے مطابق فائل میں لف کر کے متعلقہ اتھارٹی آفس جمع کروائی۔  

ہر ضلع میں ہزاروں درخواستیں مطلوبہ اتھارٹیز کے آفسز میں جمع ہوئیں۔

ریکروٹمنٹ کے سلسلے میں ضلعی سطح پر چئیرپرسن، فوکل پرسن، کمیٹی ممبرز و باقی تمام لوگ باقاعدہ نوٹیفائیڈ ہوئے۔

سکروٹنی کمیٹیز بنیں۔

ریکارڈ کی کڑی جانچ پڑتال ہوئی۔

پھر پری انٹرویو میرٹ لسٹیں آویزاں ہوئیں۔

اعتراضات کی لسٹیں چسپاں کی گئیں۔

ان کو دور کرنے کا Timeline دیا گیا۔

اعتراضات دور کرنے کا وقت دیا گیا۔

پھر انٹرویوز کمیٹیز نوٹیفائیڈ کی گئیں۔

انٹرویو وینئیوز میں Cadre وائز Timeline کے مطابق انٹرویوز کا انعقاد کیا گیا۔

تمام مرحلہ مکمل ہوا۔

سکروٹنی کمیٹیوں نے پھر ریکارڈ کی سکروٹنی کی۔

پوسٹ انٹرویو میرٹ لسٹیں لگیں۔

اعتراضات کیلئے وقت دیا گیا۔

اعتراضات دور کرنے کے بعد پھر سکروٹنی ہوئی۔

لاہور سے باقاعدہ ٹیمیں نوٹیفائیڈ ہوئیں۔

ان ٹیموں نے سکروٹنی کی۔

پھر ایک دفعہ سکروٹنی کیلئے ہر ضلع میں ٹیمیں روانہ کی گئیں۔

کچھ ضلعوں میں میرٹ کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اس میں ملوث لوگوں کو سسپینڈ کر کے درخواست گزاروں کو فوری انصاف مہیا کیا گیا۔ 

منتخب ہونے والوں کا ریکارڈ سکروٹنی کیلئے لاہور منگوایا گیا۔ تمام اتھارٹیز خود ریکارڈ لیکر گئی تھیں۔

پھر ہر ضلع کہ Top Cream کو اپائنٹمنٹ آرڈر ایشو ہوئے۔

 

لنڈے کے فلاسفر و نقاد جن کو اس پروسیجر کی الف ب کا بھی علم نہیں۔ وہ الزام تراشی جھاڑ رہے سفارشی تقرری ہوئی۔ اگر سفارشی تقرری تھی تو آپ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے مستفید ہونے سے کیوں پیچھے پیچھے رہے۔ آپ بھی سفارش سے بھرتی ہو جاتے۔ 

 

اگر پھر بھی کسی کو قابلِ عزت ٹیچرز کے میرٹ پر تقرری میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہے تو وہ تھوڑی سی زحمت فرما کر ضلعی

DEO (EE-M) OFFICE 

DEO (EE-F) OFFICE 

DEO-SE OFFICE

کا وزٹ کرنے کی زحمت فرما لے۔ ہر ایک چیز کا ریکارڈ و ثبوت  مل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔!

Thursday, April 22, 2021

جاگنا سحری کیلئے ہوتا ہے, یہ ڈھول والا شادی کے جذبات جگا کر چلا جاتا ہے

جاگنا سحری کیلئے ہوتا ہے

یہ ڈھول والا شادی کے جذبات جگا کر چلا جاتا ہے 


خوابوں کی رنگین و طلسمی دنیا میں رسمِ حنا کی تقریب میں شان سے سنگھار کی ہوئی کرسی و اسٹیج پر میرِمحفل بنے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

سفید سوٹ کی گریس و خوشنما قوس و قزع کے رنگوں سے مزین مہندی والا ڈوپٹہ جچ بھی کیا خوب رہا ہے۔۔۔۔۔۔!


 ہم پر پاکستانی کرنسی کے بے تحاشہ نوٹ نچھاور ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور ہم پر وارے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!

جن کو حاصل کرنے کے لیے ہم سحر خیزی سے سرِشام تو کبھی کبھار رات گئے تلک تگ ودو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ 


ساتھ میں دوستوں و کزنز کی گیدرنگ و ہنسی مذاق سے محفل کشتِ زعفران ہو رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


پھر سہرا بندی کی تقریب میں شان سے دلہا کی مسند پر خوشی و انبساط سے براجمان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کافی اہتمام سے تیار ہو کر دلہا کے زرق برق و مخصوص لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

سلامیوں کے ساتھ ساتھ فیملی ممبرز دوست و کزنز ہم پر نوٹ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

ظاہر سی بات ہے کل کو ہم نے بھی ان کی شادی پر ایسےہی نچھاور کئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ آج بڑھ چڑھ کر اس کام کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ 

کیونکہ وہ کیا مشہور کہاوت ہے کہ جتنا گڑھ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا. (ظاہر سی بات ہے زندگی میں اتنی بڑی خوشی و برسوں کی منتوں مرادوں سے آنے والا موقع ہے تو زبان و اندازِ بیان و گفتگو و لب و لہجہ تو ویسے ہی انتہائی شیریں ہوگا) ساتھ میں ہماری طرف بھی داد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ 


چونکہ مشرقیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دلہے میاں عموما خاموش ہوتے ہیں۔ (باتیں کرنا و خوشی و انبساط کا اظہار کرنا کچھ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ 

حالانکہ آج ہی تو خوشی کو جی بھر کے منانے کا موقع میسر آیا۔۔۔۔۔۔۔لیکن خیر) شادی کے بعد بالکل خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی وجہ سے ہم صرف مسکرا کر ہی ان کو داد دےرہےہیں۔۔۔۔۔۔!


تحفے میں ملی خوبصورت و قیمتی گھڑی میں بار بار ٹائم دیکھتے ہیں۔ 
تاکہ سب کووقت کی اہمیت کا احساس دلا سکیں۔۔۔۔۔۔!


ہمارے بار بار کے توجہ دلاؤ نوٹس کے باوجود سب فوٹو سیشن و سلفیوںِ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ 
البتہ کوئی منچلہ چٹکلا چھوڑ دیتا ہے کہ دولہے میاں گھڑی خوبصورت ہے اور رائیٹ ٹائم ہے۔ 
اور اتنی بھی بے چینی کس لئے بھابھی ابھی پارلر ہوں گی آپ نے وہاں پہلے پہنچ کر کیا لینا۔ 
اتنے برسوں صبر کر لیا اب کچھ منٹ اور صبر کے گھونٹ پیتے رہیں۔ 
اب مشرقیت کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مشرقی دولہا ہونے کی وجہ سے خود کیسے کہیں کہ فوٹو سیشن و سلفیوں کا دور جلدی اختتام پزیر کریں۔

تاکہ جلدی سے گامزنِ منزل ہو کر فتح یاب ہو کر اپنی گُل و گُلِ رخ، ماہ وش، ماہ پارہ، ماہ جبین، پری تمثال و زہرہ جبین کے سنگ فتح و کامرانی کے نشے سے چور چور ہو کر
واپسی کی راہ لیں۔ 
دِلی ہنوز دور است۔۔۔۔۔۔۔۔ 
لگتا ہے ایسے ہی کسی خاص موقع پر کہا گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر بار بار کی دل سے مانگی جانے والی دعا سے دلی مراد بر آتی ہے۔ 
اور اللّٰہ اللّٰہ کرکے بارات جانب منزل گامزن ہوتی ہے۔
اور ہم سب سے پہلے منزل تک پہنچنے کے متمنی و خواہش مند۔ 
جی چاہ رہا کہ ہوا کے رتھ سوار کر وہاں پہنچیں۔ 

راستے میں بارات کےساتھ لیٹ شامل ہونے والے عزیز واقارب و بہت قریبی دوست گلے لگا کر مبارکباد کے ساتھ گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ 
جس سے قافلہ کے بار بار توقف کی سبب سےہم اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں۔ 
لیکن کیا کریں وہی مشرقیت۔۔۔۔۔۔۔
سو مجبورا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی منزل قریب سےقریب تر آتی ہے۔ دل کی دھڑکنیں بے اختیار بے ترتیب ہونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

خیر قصہ مختص۔۔۔۔۔۔!
جونہی ہم منزل پر پہنچتے ہیں۔ 
بارات کو ویلکم کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

ساتھ ہی ساتھ ہمارے کانوں میں ڈھول کی آواز مسلسل بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ 
ہم اس ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کانوں میں انگلی چلا کر اس آواز کو کم کرنے کی بہتیرا کوشش کرتےہیں لیکن تمام کوششیں بے کار و بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ 
اور گھبراہٹ کےمارے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ 
کچھ دیر بعد جب ہمارے ہوش و حواس اپنے ٹھکانے پر آتے ہیں تو سارا ماجرا سمجھ میں آتا ہے۔
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ ڈھول ہیں جو ہمارےارمانوں کا خون کرتےہوئے ڈنکے کی چوٹ پہ اس بات پہ کا شدومد کے ساتھ اعلان کررہے ہیں۔ 
کہ سحری کا ٹائم ہو گیا ہے سحری کر لیں۔۔۔۔۔۔!

کچھ لمحات پہلے کے میرِ محفل منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر ٹھنڈے پانی کا گلاس پی کر حیرت و گومگو کی کیفیت کے ساتھ کانوں میں پڑتی ڈھول کی آواز کے ساتھ سحری کے لئے دہی لینے جانبِ منزل گامزن ہیں۔۔۔۔۔۔!

Sunday, April 18, 2021

کالج برائے خواتین / گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن

 "کالج برائے خواتین" 

"گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن"


مرد چاہے جتنی بھی ایج کے ہو جائیں ان کے لئے 

"کالج فار بوائز" ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔!


اس کے برعکس لڑکیاں جیسے ہی میٹرک پاس کیا خواتین ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


 "کالج برائے خواتین" "گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن" 


وہ لڑکیاں جو بے صبری و بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں 

کہ کب کالج لائف گزارنے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔

وہ ان دنوں کو انجوائے کرنے کے سنہری سپنے بنتی رہتی ہیں۔ 

ایڈمیشن کے لئے جونہی لڑکیاں پہلے دن گھر سے خوب بن سنور کر، شاداں و فرحان نکلتی ہیں۔ 


جن کی نظریں اس کالج بورڈ پہ نہیں پڑتی۔

وہ خوشی خوشی کالج کے تمام ڈیپارٹمنٹس  و کوریڈورز، لانز میں خوشی خوشی ہرنیوں کی مانند قلانچیں بھرتیں، خراماں خراماں سُبک رو اِدھر سے اُدھر چہل قدمی کر رہی ہیں۔ 


نئی فرینڈز بنا رہی ہیں۔ 

خوش گپیاں ہانک رہی ہیں۔ 

کینٹین میں جوس، بوتلیں و سموسے، کوکیز و چائے کے کپ اڑا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔!


وہ جن کی نظر غلطی سے جیسے ہی کالج گیٹ کے عین اوپر بورڈ پر پڑتی ہے 

جس پہ جلی حروف سے لکھا ہوتا ہے 

"کالج برائے خواتین" 


تو ان کے سارے ارمان جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ 

شاید انہی موقعوں کے لئے وہ گانا بنا ہو گا۔

دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!


اسی وجہ سے شاید کہا گیا ہے کہ کچھ موقعوں پہ لاعلمی ہی بہتر ہے۔ 

بار بار ان کی نظروں کے سامنے بورڈ جس پر جلی حروف میں کنداں "کالج برائے خواتین" لکھا نظر آ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ ادھر سے ادھر بے دلی سے کالج کے در و دیواروں کو یاس و امید کا مرقع بنی نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ 


جن پہ زیادہ اثر ہوتا ہے وہ نظروں سے کالج کے کوریڈورز, ڈیپارٹمنٹس, لانز کو ناپ رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔


اسی سبب کلئیریکل آفس میں بھی گم سم نظر آتی ہیں اور کئی تو کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا ایڈمیشن فارم لینے کے بجائے کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا فارم لے آتی ہیں۔ 


ان کا بس نہیں چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ سے جان چھڑا کر جلدی جلدی ہوا کے رتھ پر سوار ہو کر گھر پہنچ کر سکون کی سانس لیں۔۔۔۔۔۔!


جونہی وہ گھر پہنچتی ہیں کالج فائل، ایڈمیشن فارم، ہینڈ بیگ غصے سے پٹخ دیتی ہیں۔ 

گھر والے محترمہ کے ایٹیچیوڈ کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ 

ہائے ہائے۔۔۔۔۔۔! 

بے چاری کو پتا نہیں کتنی مشکلوں سے فارم ملا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔

پہلا دن تھا نہ جان نہ پہچان پتا نہیں کہاں کہاں ماری ماری پھرتی رہی ہو گی۔۔۔۔۔۔

کوئی پانی کا گلاس تو لا کے دو۔۔۔۔۔۔!


وہ محترمہ غائب دماغی سے بس جی ہوں، ہاں جی، جی ہاں، ہوں ہوں میں جواب دے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔! 


اگر کوئی بھائی غلطی سے تنگ کر لے جواب ندارد۔۔۔۔۔۔!

کہ لگتا محترمہ ابھی تک کالج کے سحر میں جکڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔!


اور مارے شامت اعمال کے اگر وہ ایڈمیشن فارم بھی اٹھا کے دیکھ لیں تو فلک شگاف قہقہے۔۔۔۔۔۔!


گھر والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں

اے لو۔۔۔۔۔۔! انہیں اب کیا ہو گیا؟ 

ایک تو یہ محترمہ چپ کا روزہ بنی بیٹھی ہیں اور ادھر یہ برخودار ہنسے چلے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


وہ موصوف بجائے بتانے کے بس وہ ایڈمیشن فارم باقی بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ 

اور پھر ہر طرف سے قہقہوں کے طوفان۔۔۔۔۔۔!


ایسے میں والدہ محترمہ سب کی شان میں جیسے ہی قصیدے پڑھتی ہیں۔۔۔۔۔۔! 

تو اصل بات ان کے گوش گزار کرتے ہیں۔


تب جا کہ محترمہ بھی اصل حقیقت سے آشنا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔! 

بس پھر کیا ان بھائی صاحب کی شامت نہیں وہ آگے آگے اور۔۔۔۔۔۔!


جب موصوف کسی طرح بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتے تو وہ رونے بیٹھ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


ایک دفعہ پھر والدہ سب کی شان میں قصیدے پڑھتی ہیں اور ان محترمہ کو دلاسے دیتی ہیں کہ کوئی بات نہیں میری بچی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پہ نہیں لیتے۔۔۔۔۔۔!


وہ محترمہ ان منحوس لمحات کو کوس رہی ہوتی ہیں جب ان کی نظر اس بورڈ پہ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔!


پھر کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ بس کسی طرح اس منحوس بورڈ پہ نظر نہ پڑے۔۔۔۔۔۔!


اگر کبھی غلطی سے نظر کبھی پڑ بھی جائے تو فورا اس سے منہ موڑ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


گھر سے کلاس بنک کرنے کا منصوبہ بنا کر اور اس کو سہیلیوں کے گوشِ گزار کر کے قلبِ مطمئنہ و شاداں و فرحان سے اگلے دن جیسے ہی کالج گیٹ پر پہنچتی ہیں کالج بورڈ پر نظر پڑتے ہی یک دم ساری پلاننگ دھبڑ دھوس و مزہ کرکرا۔۔۔۔۔۔!

کئہیوں کا تو بس نہیں چلتا کہ اس منحوس بورڈ کو اکھاڑ پھینکیں اور میونسپٹی کا ٹرک اسے کہیں دور پھینک آئے۔۔۔۔۔۔!


اس کی جگہ

 "کالج فار گرلز" "لڑکیوں کا کالج" "کالج فار ٹین ایجر گرلز" "کالج فار انڈر 15 گرلز" "کالج فار انڈر 17 گرلز" 

کے جلی حروف سے خوشنما بورڈ اپنے ہاتھوں آویزاں کر دیں۔۔۔۔۔۔!

جس کی تذئین و آرائش وہ خود اپنے ہاتھوں سے جدید خطوط کے مطابق استوار کریں۔۔۔۔۔۔!


Wednesday, April 14, 2021

خُود کُشی

خُود کُشی


اکثر کہہ دیا جاتا ہے خود کشی کرنے والا انتہائی بزدل ہوتا۔۔۔۔۔۔!

جو حالات کا مقابلہ نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔!

یہ وہ فلاں فلاں۔۔۔۔۔۔۔۔


 ‏کس نے کہہ دیا خود کشی کرنا بزدلانہ کام ہے؟؟؟


موت کو گلے لگانا آسان کام ہے؟؟؟؟


کسی سے پوچھ لیں کیا کوئی اس دنیا میں خود سے مرنا چاہتا ہے؟؟؟؟ 

کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔


خود مرنا آسان نہیں ہوتا..........

اس کے لئے بہت بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت زیادہ ہمت، حوصلے و جرات کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


موت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اپنی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کبھی کسی نے زحمت فرمائی کہ خود کشی کرنے والے پہ کیا بیتی؟؟؟؟


کسی نے آج تک زحمت فرمائی کہ کوئی خود کشی کی نہج تک پہنچا کیسے؟؟؟؟


کبھی کسی نے کسی خود کشی کے پیچھے وجہ جاننے کی زحمت فرمائی کہ کیوں اس نہج تک پہنچ کر یہ قدم اٹھایا؟؟


کیوں اس نے اپنے ہاتھوں سے زندگی کا چراغ گل کر دیا؟؟؟؟؟


کیا کچھ اسے سہنا پڑ رہا تھا کہ ناقابل برداشت ہو کے یہ قدم اٹھایا۔۔۔۔۔


دکھ سہنا اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہو گا۔۔۔۔۔


دماغ پر کسی کی باتیں ہتھوڑوں کی مانند برستی ہوں گی۔۔۔۔۔


دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہو گئی ہوں گی۔۔۔۔۔۔


روح تک کو چھلنی و گھائل کر دیا ہو گا۔۔۔۔۔۔


بےمعنی ہو جاتا ہے سب کچھ۔۔۔۔۔۔

سب کچھ۔۔۔۔۔


سب رنگ بے رنگ لگتے ہیں۔۔۔۔۔


قوس و قزح کے رنگ و روشنیاں و رعنائیاں و رنگینیاں سب سیاہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کی مانند محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


جس پر بیت رہی ہوتی وہی جانتا ہے فقط۔۔۔۔۔۔۔۔


پل پل کے مرنے سے ایک دفعہ کا مرنا آسان ہوتا۔۔۔۔۔


زندہ درگور ہونے سے ایک دفعہ مرنا آسان۔۔۔۔۔


باقی حوالے و ریفرنسز بہت دئیے جاسکتے ہیں۔

کیونکہ ہم پر وہ بیت نہیں رہی ہم اس ٹاپک پر زمین و آسان کے قلابے ملا سکتے۔۔۔۔۔۔۔


جو جس پر بیت رہی ہوتی ہے فقط وہی جانتا ہے۔۔۔۔۔۔!

جو دکھ، قرب، تکلیف، رنج و الم کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

چکی کے پاٹوں کے درمیان گھس گھس کر ختم کو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی بہتر جانتا ہے کیسے پس رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پستے و دو پاٹوں کے درمیان رگڑے جانے کی کیا تکلیف ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور باہر منظر دیکھنے والوں کو فقط و آٹا گرتا نظر آتا۔۔۔۔۔۔

اس دانے پر کیا بیت رہی وہ محسوس تب ہو گا جب ہلکا سا اس پراسیس سے گزریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


‏جب میں نے 4-5 روٹیاں بہترین 3-4 ڈشوں کے ساتھ اڑائی ہوں۔ میں فاقہ کشی کے منظر پر بہت اچھا بھاشن جھاڑوں گا۔۔۔۔۔۔

اس کے حوالے سے ریفرینسز کوٹ کروں گا تاریخی حوالوں کا ایک انبار لگا دوں گا۔۔۔۔۔

لیکن جب میرا پیٹ و آنتیں قل ہو اللّٰہ پڑ رہی ہوں گی۔تو کل کی روٹی وسالن پر لپکوں گا پہلے۔ 

سب بھاشن چھوڑ کر۔۔۔۔۔۔


رَبُّ العِزت۔۔۔۔۔۔!

سے بس ہر وقت یہی دُعا کرتے رہنا چاہیے۔ کہ وہ پاک کریم، رحمن و الرحیم ہم سب کو ایسی صورتحال سے محفوظ فرمائیں۔۔۔۔۔۔!

آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔!

 یَا رَبِّ الْعَالَمِينَ۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, April 6, 2021

بارش، رِم جھم، ریشمی پھوار و شبنمی بوندیں

 بارش، رِم جھم، ریشمی پھوار و شبنمی بوندیں


انتہائی دلکش، دلفریب و دل کے تاروں و سُروں کو بے اختیار چھیڑتی ملگجی صُبح سے ہی آوارہ بادلوں کا پھر سے اٹھکیلیوں کا دلاویز منظر۔۔۔۔۔۔!

صبح سویرے بھیگی بھیگی بادِ صبا و بادِ نسیم و بادِ شمیم میں ابر کی آنکھ مچولی کا منظر۔۔۔۔۔۔!

ٹھنڈی مُدھر ہوا کے جھونکوں نے موسم کی رنگینی و دلفریبی کو برستی پھوار نے مزید بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔!

برستی پھوار نے دل و دماغ کو شگفتہ و تروتازہ کر دیا۔۔۔۔۔۔!


آرٹسٹک لینڈ سکیپ کی طرح ملگجے موسم میں سر سبز و شاداب رستے و بارش کی وجہ سے نکھرے و کھلے کھلے پیڑ و پودے۔۔۔۔۔۔!

سرسوں کے کھلے پھولوں والے کھیتوں و کھلیانوں نے اس موسم کی رنگینی کو مزید بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔!


ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں تن من کے تاروں و سُروں کو بے اختیار چھیڑتی برستی پھوار۔۔۔۔۔۔!

فضا میں رچی بسی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک۔۔۔۔۔۔!

بادِ صبا و بادِ نسیم و بادِ شمیم کے مُدھر جھونکوں کے ساتھ گلاب کی بھیگی بھیگی بھینی بھینی مہک۔۔۔۔۔۔!

فضامیں جلترنگ بکھیرتی کلاسیکی موسیقی۔۔۔۔۔۔!

گرما گرم بھاپ اُڑاتے چائے ☕ کے سپ نے موسم کی دلفریبی و رنگینی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔۔۔۔۔۔!

دل کے تاروں کو بے اختیار چھیڑ دیا ہے۔۔۔۔۔۔!


ایسے خوبصورت، دلکش و رُومانوی موسم میں آج اہتمام سے بنائے گئے کُرکرے پکوڑوں کے ساتھ بلور ہاتھوں سے بنائی چائے☕۔۔۔۔۔۔!

‏خُوبصورت و رُومانوی سہ پہر میں آنگن میں بکھری و رچی بسی ہوئی سُوجی کی سوندھی سوندھی دلفریب مہک۔۔۔۔۔۔!

جاڑے کی ٹھٹھرتی خُنک سہ پہر میں بھی اس پری تمثال ماہ وش کی جبین پہ آویزاں ہوتے شبنمی موتی۔۔۔۔۔۔!

گل رُخ پہ ہالہ کیے سمیٹنے سے مزید بکھرنے والی محوِ رقصاں ریشمی امبر زلفیں۔۔۔۔۔۔!

‏چولہے کی سرخی مائل نیلگوں آنچ سے دہکتے شہابی گال۔۔۔۔۔۔!

حلوہ کی کی گئی فرمائش پہ دل سے بناتے ہوئے ریشمی احساس۔۔۔۔۔۔!

پری تمثال کے نکھرتے صبیح حسن میں فکر کا پرتو لیے۔۔۔۔۔۔!

جھیل سی گہری شفق کے ڈورے لئے قرمزی آنکھوں میں جلتے دئیے۔۔۔۔۔۔!

یہ مہک مزید نکھرتی ہے ہر سو بکھرتی ہے اگر دل سے کوئی چیز بنائی جائے۔۔۔۔۔۔!



رات کی بھیگتی پلکوں میں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں رم جھم و برستی پھوار۔۔۔۔۔۔!

‏ہر طرف پھیلی و بکھری سیاہی میں کبھی کبھار نیلگوں امبر سے مدھم سی چمکنے والی لائٹ فضا میں ایک نیا نکھار لے آتی ہے۔۔۔۔۔۔!

ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی پھوا۔۔۔۔۔۔!

‏ہوا کے دوش پر جلترنگ بکھیرتا مُدھر نغمہ۔۔۔۔۔۔!

گھر کا آنگن 🏠

ہم دونوں 😍

چائے ☕ کا مگ تھامے۔۔۔۔۔۔!

ہاتھوں میں ہاتھ لیے 😍

 چائے ☕ کے سپ لیتے۔۔۔۔۔۔!

اس کی جبین و شہابی گالوں و سحر طاری کرتی گھنیری سیاہ امبر زلفوں پہ بکھرتے موتیوں میں جگمگاتا صبیح چہرہ۔۔۔۔۔۔!

اس کی امبر زلفوں کی بھینی بھینی مہک سے نکھرتے۔۔۔۔۔۔!

خراماں خراماں سبک رو چلتے ڈھیروں ڈھیر باتیں کرتے۔۔۔۔۔۔!

Monday, April 5, 2021

نفرت کی شدت و انتہاء سے سفرِ محبت


نفرت کی شدت و انتہاء سے سفرِ محبت


نفرت۔۔۔۔۔۔!


خالصتاً ایک سچا جذبہ ہے۔۔۔۔۔۔!


بے پناہ نفرت ہوتی بھی ان سے ہے۔۔۔۔۔۔۔!


جن سے ہم بے پناہ پیار و محبت کرتے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

جو ہمیں جی جان سے پیارا لگتا تھا۔۔۔۔۔۔!

جو ہر لمحے ہمارے دل و دماغ میں بستا تھا۔۔۔۔۔۔!

جو ہماری دھڑکنوں و سانسوں میں بستا تھا۔۔۔۔۔۔!

جس کے بنا ہم ایک پل گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔۔۔!


‏انسان جس سے نفرت کرتا ہے،

سچے من سے کرتا ہے۔

بغیر کسی لگی لپٹی کے۔ 

بغیر کسی کھوٹ کے۔۔۔۔۔۔!


 انسان اس شخص کو ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ 

ناقابل برداشت ہو جاتا ہے وہ شخص۔ 

اس کی شکل دیکھنا بھی ہم گوارا نہیں کرتے۔ 

اسے دیکھ کے یا اس کی باتیں سن کے یا اس کا خیال آتے ہی جھنجھلاہٹ طاری ہوجاتی ہے۔ 

بیزاری سی بھر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!

‏ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔

چنگاریاں پھوٹنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔!


دل و دماغ میں اس شخص کے لئے نفرت کا الاؤ بھڑک رہا ہوتا ہے۔ 

یہ وہ جذبہ ہے جس میں کھوٹ و ملاؤٹ نام کی کوئی گنجائش بچتی ہی نہیں۔ 

نہ ہی کسی قسم کے رحم و ہمدردی کے کسی جذبے کی گنجائش اس شخص کے لئے کسی طور بچتی۔۔۔۔۔۔!


‏یہ بھی سچ ہے۔۔۔۔۔۔! 

کہ جس شخص سے ہم بے پناہ نفرت کرتے ہوں۔ 

اگر اس سے ہمارا آمنا سامنا ہوتا ہو یا وہ آس پاس موجود ہو اور وہ بغیر کچھ کہے چپ چاپ ہماری کڑوی کسیلی و تلخ باتیں سن لیتا ہو۔

اس کی خاموشی ہمیں اور جھنجھلا دیتی ہے۔ 

ہم چاہتے ہیں کہ وہ شخص بولے، جواب دے تاکہ ہم اس پہ مزید غصہ کر سکیں۔

‏اس کی ہر بات خاموشی سے چپ چاپ سن لینے عادت ہمیں بہت برافروختہ کرتی ہے۔۔۔۔۔۔!


ایسے میں جب کبھی ہماری ہر کڑوی، کسیلی، تلخ بات سن کر خامشی سادھنے والے شخص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو وہ اپنی خامشی کو توڑ کے بولتا ہے بہت بولتا ہے۔ 

اردگرد سے بےخبر بس بولے ہی چلا جاتا یے۔ 

پھر پرانے سارے حساب کتاب چکتا کرتا ہے۔ 

اور جب آنسوؤں میں اس کی آواز رندھ جاتی ہے۔

‏آنکھوں و گالوں سے بہتے آنسوؤں کی تاثیر اس وقت بہت خطرناک و پراثر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


اگر اس لمحے میں اس شخص پر زرا سی نظر ٹھہر جائے۔۔۔۔۔۔! 

تو ایسے میں ان آنسوؤں کی تاثیر براہ راست ہمارے دل پر سحر طاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔!

یہ لمحات ہمارے دل و دماغ میں جیسے نقش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اور یہی تاثیر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!


‏تنہائی میں یہ تاثیر اور بھی شدت اختیار کر لیتی ہے۔۔۔۔۔۔! 

تب ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے ناحق اتنا غلط کیا۔۔۔۔۔۔!


یہی احساس آہستہ آہستہ زور پکڑتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔! 

اور ہمیں ہماری انا کے سبب اکھڑے لہجے میں ہی سہی لیکن ہمیں سوری کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔!


اس کے بعد ہمیں یہ سحر مسحور کرتا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!


جو آہستگی سے خراماں خراماں سبک روی سے ہوتے ہوئے پیار سے محبت کی جانب محوِ سفر ہونے پر مجبور کر دیتا۔۔۔۔۔۔!


Saturday, April 3, 2021

دل کی راجدھانی

دل کی راجدھانی


چاہے وہ دل کی راجدھانی ہو۔۔۔۔۔۔!

مکان کی۔۔۔۔۔۔!
ریاست کی۔۔۔۔۔۔!
سلطنت کی۔۔۔۔۔۔!

اس کا جاہ و جلال و رنگینی و رعنائی و رونقیں مکینوں کی بدولت ہی دلکش و خوبصورت لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


مکین نہ ہوں۔۔۔۔۔۔! 
تو کوئی مکان، راجدھانی و سلطنت کتنی ہی پرشکوہ، پر آسائش، آراستہ و پیراستہ ہو۔۔۔۔۔۔!
ویرانی و اُداسیوں کی آماجگاہ ایک ویران کھنڈر کی مانند ہوتی یے۔۔۔۔۔۔!


دل ❣️ کی راجدھانی کے مکین چاہے رخصت بھی ہوجائیں۔۔۔۔۔۔! 
تب بھی اپنے پیچھے ان مٹ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
ان نقوش کی چھاپ بہت گہری و دیرپا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
انکی یادوں کے سلسلے محو ہونا ناممکنات میں سے ہے۔۔۔۔۔۔!

کسی لمحہ کسی گھڑی، کسی واقعہ سے۔۔۔۔۔۔! 
وہ مکین اپنی تمام تر شدتوں سے پھر سے انہی در و دیواروں، جھروکوں، غلام گردشوں میں اپنی تمام رونقوں کے ساتھ سانس لیتے، ہنستے بستے محسوس ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
ان کی ہنسی کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
ان کے فلک شگاف قہقہے جلترنگ بکھیر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
قوس و قزح کے رنگ بکھیر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
بھرپور زندگی و رعنائیوں کے ساتھ ان کا احساس خوش کن تعاثر پیدا کر کے طبیعت میں شگفتگی سی بکھیر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔!


عہدِ ماضی کے بہترین، خوبصورت و حسین پل ساری کلفت، اُداسی کو یکلخت رفو کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کبھی یادوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔!
اک ایک کر کے تمام گزرے پل و واقعات دماغ کی پردہ سکرین پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

پھر ہجر برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
ہمیں اتنا بوجھل کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
جیسے صدیوں کا بھٹکا ہوا صحرا نورد۔۔۔۔۔۔!


جو قہقہے کیا ہنسی کیا لبوں سے مسکان تک چھین لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
ہر طرف اداسی و یاسیت کے گہرے ڈیرے جما دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
سانس تک لینا دوبھر کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

Friday, April 2, 2021

نوسٹلجیا

نوسٹلجیا


اقتباسات یاد رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


لفظ یاد رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


لیکن کبھی کبھار سب کچھ محو ہو جاتا۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ۔۔۔۔۔۔!


سب کچھ محو ہو جاتا۔۔۔۔۔۔! 

ہر کوئی اپنے اپنے دائرے میں جینے لگ جاتا یے۔۔۔۔۔۔!


لیکن خام خیالی۔۔۔۔۔۔!


محو کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!


یادیں زندہ رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

یادیں جینا دوبھر کردیتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔۔۔! 

جو سر جھٹک کر سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ۔۔۔۔۔۔!


ٹھیک ہی تو کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

پرانے کاغذوں کو ساتھ رکھنے سے ان کی سیاہی ہی خراب کرتی ہے۔

اس سے بہتر وہ ٹھیک کرتے ہیں کہ کاغذوں کو ریزہ ریزہ کر کے ہواؤں میں اچھال دیتے ہیں۔

اور اپنی زندگی جیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کچھ یادیں قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

جو چاہ کر بھی ہم انھیں خود سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔!

نہ جلا سکتے۔۔۔۔۔۔!

نہ ہی دریا برد کرتے۔۔۔۔۔۔!


بس قیمتی موتیوں کی مانند اس نوسٹیجلیا کے خزانے کو سمیٹے رکھتے۔۔۔۔۔۔!


جانتے بوجھتے۔۔۔۔۔۔!

جانتے ہوئے بھی کہ یہ جینا دوبھر کر دیں گے۔۔۔۔۔۔!

سانس تک لینا دوبھر کر دیں گے۔۔۔۔۔۔!

لیکن ہم اس کو سینت سینت کر رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کچھ سوالوں کے جواب ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔!

نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔!

اور ہمیں ڈھونڈنے سے بھی ان کے جواب نہیں ملتے۔۔۔۔۔۔!

Thursday, April 1, 2021

سفرِ زیست

 سفرِ زیست 


زندگی کا سفر بھی ریل کے سفر کی مانند یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کسی اسٹیشن پر سفر پرسکون کٹتا یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کچھ بہترین ہمسفر ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جو اپنی سیٹ تک آپ کیلئے وقف کر دیتے ہیں۔

اپنا اس وقت کا مال و متاع تک بغیر کسی طمع و لالچ کے بغیر کسی مطلب و غرض کے بخوشی آپ سے شئیر کرتے ہیں۔ بے پناہ اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏کچھ ایسے بھی ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جو آپ کی سیٹ پر بمع اپنے سازو وسامان کے قابض ہوجاتے ہیں۔

آپ کے زرا سا ٹکنے تک کیلئے زرا سی بھی جگہ نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کبھی کھڑے ہو کر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی کسی کے ساتھ ایڈجسٹ ہو کر یا پھر کبھی اوپر والی برتھ پر سفر کاٹنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی رش اتنا کہ دروازے میں ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏کبھی آپ کےاردگرد شوروغل اتنا ہو جاتا ہے کہ دماغ کی نسیں پھٹنے لگ جاتی ہیں۔

جی چاہتا ہے کہ بس کسی طور منزل آ جائے یا اس جگہ سے دور کہیں پرسکون وادی میں جا بسیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی کسی اسٹیشن پر ہجوم اتنا ہو جاتا ہے کہ سانس لینا بھی دوبھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی کسی اسٹیشن پر بوگی ساری خالی کہ آپ خالی پن سے اکتا جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏کبھی سفر کی روشنیاں آپ کو بھاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی خوشگوار صبح و شام کی بھیگتی پلکوں پر افق پر شفق قوس و قزح کے رنگ بکھیر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی رات کی تاریکی و سناٹے آپ کو پرسکون کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی آپ کھڑکی سے خوشنما رنگین نظاروں میں کھوئے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 


کبھی ان سب سے بیزار ہو کر بس اپنی زات میں ہی مگن‏ ایک پٹڑی پر منزل کی جانب مسلسل گامزن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


رستےمیں کئی یونیک وخوبصورت ہمسفر ایسے مل جاتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جن کی شخصیت کا سحر آپ پر طاری ہو کر آپ کو مسحور کر دیتا یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

مُدھر جھرنوں، مُدھر سروں، بہار کی سی کیفیت طاری کر دیتا یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 

ان  کے ساتھ سفر کی چاشنی  و دلکشی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ جی چاہتا ہے سفر ختم ہی نہ ہو کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏لیکن فنا پر قائم اس دنیا و اس کے تمام اسباب کی طرح بالاخر ان کی یا ہماری منزل آ جانے پر اداس، غمگین و بوجھل دل کے ساتھ انھیں الوداع کہنا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 

جس کے بعد کئی دنوں تک وہ خوشگوار یادیں دل و دماغ کو بوجھل کیے رکھتی ہیں۔ ہماری زات پر ہر چیز سے بیزاری و اکتاہٹ طاری کیے رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏وقت سب سے بڑا پھاہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جو تمام حالات و واقعات و دکھوں کو آہستہ آہستہ مندمل کرتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 


وہ لوگ بھی وقت کی دھول کے ساتھ کچھ دھندلے سے ہو جاتے ہیں لیکن محو نہیں ہوتے کبھی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


زندگی کے جھمیلوں میں الجھے ہونے کے سبب کبھی زندگی کے کسی موڑ پر اچانک سے ان سے سرِراہ ملاقات ہو جانے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

‏آپ پر شادیِ مرگ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

جیسے لق و دق صحرا میں مل جانے والا نخل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جیسے خزاں میں بہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر سے یادوں کے لامتناہی سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 

زندگی سے وہ بھرپور لمحے جینے کی خوشگواریت کئی روز آپ کو شاداں و فرحان، خوشگوار و چاروں اور بہار کی سی کیفیت طاری کیے رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

الوداعی لمحات


الوداعی لمحات 


 سب سے مشکل لمحے الوداعی ہوتے ہیں


جیسے بپھری موجوں والے سمندر میں خامشی و سکوت

ہنگامہ خیز دن کے بعد رات کی تاریکی و سناٹا

ریل گاڑی کی ہلچل کے بعد ویران پلیٹ فارم


سانسیں بوجھل، سانس تک لینا دو بھر

زندگی تھم سی جاتی ہے


سارے رنگ پھیکے و ماند پڑجاتے

جی چاہتا ہے کہیں ویرانے میں بسیرا کرلیں


‏ساری روشنیاں ماند و زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں

زیادہ تر سنی جانے والی پسندیدہ غزلیں و گیت بھی بے معنی ہو جاتے ہیں

کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے

ہر شے سے جی اچاٹ ہو جاتا ہے

ہر چیز سے بیزاری، کوفت، جھنجھلاہٹ انتہاؤں کو چھو رہی ہوتی ہے


کسی کے زرا سا کچھ  کہنے سے اس سے خوامخواہ الجھنا

‏ہجوم و محفل میں بھی دل و دماغ کہیں اور ہی الجھا رہتا ہے


جتنا چاہے جی کو بہلایا جائے زہن کہیں اور بٹایا جائے اسی شدت سے اس کے سنگ گزرے لمحات ایک ایک کرکے پردہ سکرین پہ چل کر اور بے چینی وبیقراری کو بڑھاتے ہیں

یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔جو کسی صورت رکنے و تھمنے کا نام نہیں لیتا


‏اس الوداعی شخص کے سنگ بیتے پل، گزری یادوں کا قیمتی اثاثہ اس وقت ڈھارس بندھاتا ہے۔. شدت کی طغیانی میں کمی لاتا ہے


اس سنگ گزرے پلوں کی اہمیت کا احساس اسے الوداع کہنے پہ پتا چلتا ہے کہ اسکے سنگ بیتے پل زندگی کے بہترین گزرے و بھرپور جئے پل محسوس ہوتے ہیں نہایت بیش قیمت و انمول۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Summer School Timing Change 2024

  Summer School Timing Change 2024