قابلِ عزت ٹیچرز مئیرٹ تقرری
ان تمام نقادوں کی خدمت میں پیش خدمت جو کسی پروسیجر کی الف ب نہیں جانتے اور نقادی کا شغل جھاڑتے ہوئے ٹیچرز پر سفارشی بھرتیوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے تو حکومت پنجاب کی جانب سے باقاعدہ اس سال کہ بھرتی کی پالیسی ایشو ہوئی تھی۔
اس تفصیلی پالیسی میں تمام کیڈرز کی اپائنٹمنٹ پروسیجر و کرائیٹیریا مختص تھا۔
ساتھ جلی حروف میں مینشن تھا۔
'خالصتََا میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہو گی"۔
الْحَمْدُ الِلَّهِ
تمام قابلِ عزت ٹیچرز ٹف میرٹ کمپئیٹ کر کے میرٹ پر اپوائنٹ ہوئے ہیں۔
ہر ضلع نے اپنی ضلعی Vacancies کے مطابق باقاعدہ اخبار پر اشتہارات پبلش کروائے تھے۔
تمام پروسیجر کا ٹائم لائن مختص کیا گیا تھا۔
اور NTS web پر Application Form اور Test Content Update ہوا تھا۔
ٹیچرز نے NTS Web پر آنلائن اپلائی کیا تھا۔
فارم پرنٹ آؤٹ کر کے بھیجے تھے۔
پھر NTS Web پر رولنمبر سلپس اپ لوڈ ہوئیں۔
وہ پرنٹ آؤٹ لیکر امتحانی سینٹر پہنچے تھے۔۔
ہم بھی اس وقت پرائمری ٹیچر تھے۔ کیا شاندار دور تھا۔ ایک کلاس بھی فری نہیں ہوتی تھی۔ 60-70 بچوں کی اوور کراؤڈڈ کلاس۔ ٹیچرز کی تعداد کم۔ تعداد کی وجہ سے سبجیکٹس کے مطابق 6 پیریڈز کا ٹائم ٹیبل بنایا۔ 2 پیریڈز میں 60-70 طلباء کی اوور کراؤڈڈ 2-2 کلاسز سبھالتے تھے۔ لنڈے کے ارسطو نقادی جھاڑتے ہیں کہ گورنمنٹ ٹیچرز مفت کی بٹور رہے ہیں۔ پڑھاتے نہیں ہیں۔ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔
پھر ہماری فلی ائیر کنڈیشنڈ کلاس رومز تھیں۔
درختوں کے گھنی چھاؤں تلے اور سورج کے ساتھ ساتھ ہماری موومنٹ بھی بڑھتی رہتی۔ بچے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسے طاق ہو چکے تھے کہ گھنٹی بجتے ہی مانئیٹرز کی کمانڈ میں مارچ شروع کر کے درختوں کی گھنئیری چھاؤں میں ڈیرے جما لیتے تھے۔
سردیوں، جاڑے، کُہر و دُھند میں خیر ہیٹر کا بندوبست نہ ہوتا تھا۔ کُہر و دُھند میں جب گلوز میں بھی ہاتھ یخ ہو جاتے تھے۔ ایسے شدید ترین موسم میں نیلگون امبر تلے اوپن ائیر کلاس رومز میں طالبعلم کُہر و دھند کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی فیضیاب ہوتے تھے۔ خیر وقت و ماحول کے ساتھ ساتھ انسان مطابقت کر ہی لیتا۔ اس کے حل کے طور پر میری ساری فورس ان کے کمانڈوز میرے پہنچتے ہی فورا کاروائی رپورٹ پیش کرتے۔
استاد جی آج کے دن کا اسلحہ ڈپو میں جمع ہو گیا ہے۔
درختوں کے گرے سوکھے پتے، ٹوٹی شاخیں، ٹہنیاں، گھاس پھونس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اس کو جلانے کے بعد دائرہ بنا کر اس کے گرد دن کا آغاز ہوتا۔۔۔۔اور وقتا فوقتا اس کو بڑھکا کر کچھ موسم کی سختی کا مقابلہ کرنے کی ہمت آ ہی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر میرا سروس میکہ تھا۔
پرسکون اسٹیشن
شاندار ماحول
Best Atmosphere to Teach
ایچ ایم زندہ دل، خوش مزاج و حقیقی معنوں میں فیملی کے سربراہ تھے۔ بہترین کوآرڈینیٹر و لیڈر جو ہر مشکل میں خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیتے تھے۔ جو تمام فیملی کو ایک مٹھی کی مانند جوڑے رکھتا ہے۔ گرم و سرد حالات حالات سے بچائے رکھتا ہے۔
انتہائی محنتی، قابل، دوستانہ، مشفق و مہربان کولیگز، ہر ایک معاملے پر چھتری بن جانے والے سینئرز و باقی کولیگز۔ فیملی جیسا ماحول تھا۔ جس کی بدولت یہ حالات کچھ خاص معنی نہ رکھتے تھے۔
باتوں ہی باتوں میں سروس میکے کا سلسلہ چل نکلا۔ سسرال میں چائے جتنا مرضی آرام سکھ و آسائش ہو لیکن ہا ہ ہ ہ ئے وہ میکے کی چاشنی و دلفریبی و سکھ کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔
رنگوں میں اک رنگ گلابی
آنچل، چہرہ، ہونٹ، گلابی
ہائے اب کیا کہیں؟
کیسے کہیں؟
کیسے بتائیں؟
جیسے ہی سوالیہ کاپیاں کمرے میں آئیں۔
ٹاپ پہ پڑی مسحور کُن و دلفریب پنک کاپی کو دیکھ کے ٹیسٹ کی ساری Tension، کلفت و تھکان جھٹ سے رفو ہو گئی (مجال ہے جو ٹیسٹ کے لئے زرا سی کوئی کتاب کھول کے پڑھنے کی زحمت گوارا کی تھی)
لبوں پہ بے اختیار مسکراہٹ بکھر گئی.
طبیعت میں شگفتگی بکھر گئی.
جاڑے میں کھڑکیوں سے اترتی نرم نرم روپیلی دھوپ کی تمازت میں نکھری نکھری پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔پنک کاپی نے چاروں اور قوس وقزع کے رنگ بکھیر دئیے۔۔۔۔۔ہمیں بالاخر پنک کاپی مل گئی۔۔۔۔۔جسکی بدولت 2015ء میں ESE اپوائنٹ ہوئے۔ پھر اب SESE..........
خیر اس کے بعد اپنے دوسرے NTS TEST جو کہ SSE کیلئے تھا۔ ہم ایک دفعہ پھر سے کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔ بار بار نظریں گلابی کاپی کی اور جا کر گھڑی کی سوئیوں پہ رک جاتی تھیں۔ جو منہ چڑا رہی تھیں کہ ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے خیر خدا خدا کرکے وقت سست روی سے سرکنا شروع ہوا۔ وہ لمحہ آن پہنچا جب ایگزمنر صاحب اٹھے و کاپیاں تھامیں۔ دل کی ہر 1 دھڑکن پکار رہی تھی۔ پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔!
ایک ایک کرکے تمام Candidates کو Examiner صاحب کاپیاں تھمائے جا رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو ہمیں تھمائی گئی Yellow Copy ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نےبادل نخواستہ کاپی تھامی۔ کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آرہی تھی۔ بس خشمگین نگاہوں سےایگزامنر صاحب کو تکتے رہے۔ کچھ توقف کے بعد اوسان کچھ بحال ہوئے تو ایگزامنر صاحب سے دکھی دل سے Request کی کہ سر پنک کاپی مل سکتی ہے۔ حسب توقع ایگزامنر صاحب نے مسند ایگزامنر پہ براجمان ہونے و ہمارا صنفِ کرخت ہونے کی سبب فورا رد کیا اور فرمان جاری کیا۔
کہ جو مل چکی یے اسے ہی حل کریں۔
(کیا پتا اگر صنفِ کرخت نگران کے بجائے کوئی صنفِ نازک نگران ہوتی تو ہماری سوالیہ شکل و التجائیہ لہجے سے متاثر ہو کے مُسکان بکھیر کے پنک کاپی تھما دیتیں)
بعد میں سب سے آنکھ بچا کے پھر ریکویسٹ کی جو Candidate آج کے دن Absent ہیں۔ اس میں سے کسی کی پنک کاپی عنایت فرما کر دلیِ تشکر و ممنون ہونے کا موقع عنایت فرمائیں۔
لیکن جواب ندارد۔
خیر دل کےارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!
بار بار نگاہیں بے اختیار پنک کاپی تھامے خوش نصیبوں کی طرف اٹھتیں۔ دل سے ہوک اٹھتی و ہم دکھی دل سے دھیان اپنی پیلو کاپی میں کھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آسمان کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا
دھیان میں ہے چہرہ ایک مہتابی سا
اب اس کا اثر یہ ہوا۔
کہ ہم UC Marks سے نوازنے والوں کی لسٹ میں نہیں تھے۔ لہذا میرٹ پر ہونے کے باوجود UC Marks نہ ہونے کی بدولت میرٹ سے آؤٹ کر دئیے گئے۔ خیر قسمت میں دانا پانی اسی کیڈر کا لکھا تھا۔۔۔۔۔
اس پاک زات کا بصد شکر وہ جس حال میں بھی رکھیں۔
پھر اوریجنل کاپی ہم سے لیکر کاربن کاپی ہمیں تھما دی گئی تھی۔
شام کے وقت NTS web پر Keys اپ لوڈ ہوئیں. کاربن کاپی تھامی دل کی بے ترتیب ہوئی دھڑکنوں کو پھیلتی سراسیمگی کو سنبھالا۔ ٹھنڈے پانی کے 2-3 گلاس پئیے۔ کینز کے مطابق اسکورنگ کرتے سانسیں اٹک رہی تھی۔ Heart Beat بڑھ رہی تھی۔ Pulse Rate اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ بالاخر اسکورننگ مکمل ہوئی۔ پرسکون ہوئے کہ مارکس اچھے تھے میرٹ میں مقابلہ ہو سکتا ہے۔
کچھ وقت کے بعد NTS Web پر رزلٹ Upload ہوا تھا۔
پھر بائی ڈاک ہمیں DMC بھیجی گئیں۔
ایپلیکیشن فارم، ڈگریوں و سروس ریکارڈ کی مصدقہ نقول، ڈیپارٹمنل کوڈل فارمیلٹیز کے مطابق فائل میں لف کر کے متعلقہ اتھارٹی آفس جمع کروائی۔
ہر ضلع میں ہزاروں درخواستیں مطلوبہ اتھارٹیز کے آفسز میں جمع ہوئیں۔
ریکروٹمنٹ کے سلسلے میں ضلعی سطح پر چئیرپرسن، فوکل پرسن، کمیٹی ممبرز و باقی تمام لوگ باقاعدہ نوٹیفائیڈ ہوئے۔
سکروٹنی کمیٹیز بنیں۔
ریکارڈ کی کڑی جانچ پڑتال ہوئی۔
پھر پری انٹرویو میرٹ لسٹیں آویزاں ہوئیں۔
اعتراضات کی لسٹیں چسپاں کی گئیں۔
ان کو دور کرنے کا Timeline دیا گیا۔
اعتراضات دور کرنے کا وقت دیا گیا۔
پھر انٹرویوز کمیٹیز نوٹیفائیڈ کی گئیں۔
انٹرویو وینئیوز میں Cadre وائز Timeline کے مطابق انٹرویوز کا انعقاد کیا گیا۔
تمام مرحلہ مکمل ہوا۔
سکروٹنی کمیٹیوں نے پھر ریکارڈ کی سکروٹنی کی۔
پوسٹ انٹرویو میرٹ لسٹیں لگیں۔
اعتراضات کیلئے وقت دیا گیا۔
اعتراضات دور کرنے کے بعد پھر سکروٹنی ہوئی۔
لاہور سے باقاعدہ ٹیمیں نوٹیفائیڈ ہوئیں۔
ان ٹیموں نے سکروٹنی کی۔
پھر ایک دفعہ سکروٹنی کیلئے ہر ضلع میں ٹیمیں روانہ کی گئیں۔
کچھ ضلعوں میں میرٹ کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اس میں ملوث لوگوں کو سسپینڈ کر کے درخواست گزاروں کو فوری انصاف مہیا کیا گیا۔
منتخب ہونے والوں کا ریکارڈ سکروٹنی کیلئے لاہور منگوایا گیا۔ تمام اتھارٹیز خود ریکارڈ لیکر گئی تھیں۔
پھر ہر ضلع کہ Top Cream کو اپائنٹمنٹ آرڈر ایشو ہوئے۔
لنڈے کے فلاسفر و نقاد جن کو اس پروسیجر کی الف ب کا بھی علم نہیں۔ وہ الزام تراشی جھاڑ رہے سفارشی تقرری ہوئی۔ اگر سفارشی تقرری تھی تو آپ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے مستفید ہونے سے کیوں پیچھے پیچھے رہے۔ آپ بھی سفارش سے بھرتی ہو جاتے۔
اگر پھر بھی کسی کو قابلِ عزت ٹیچرز کے میرٹ پر تقرری میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہے تو وہ تھوڑی سی زحمت فرما کر ضلعی
DEO (EE-M) OFFICE
DEO (EE-F) OFFICE
DEO-SE OFFICE
کا وزٹ کرنے کی زحمت فرما لے۔ ہر ایک چیز کا ریکارڈ و ثبوت مل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔!
عمدہ تحریر۔ عمدہ بیان۔
ReplyDeleteمشکرم آ لاٹ۔ 🙏🙏🙏🙏
Deleteعمدہ تحریر۔ عمدہ بیان۔
ReplyDeleteمتشکرم آ لاٹ۔ 🙏🙏
Deleteجزاک اللّٰہ خیرا کثیرا و احسن الجزا۔ 🙏🙏🙏
عمدہ تحریر۔ عمدہ بیان۔
ReplyDeleteمتشکرم آ لاٹ۔ 🙏🙏
Deleteجزاک اللّٰہ خیرا کثیرا و احسن الجزا۔ 🙏🙏🙏