Search This Blog

Showing posts with label ادب کا سفر. Show all posts
Showing posts with label ادب کا سفر. Show all posts

Saturday, July 9, 2022

احساس

احساس

کبھی کبھار

کسی بھی بات سے فرق پڑتا ہی نہیں

کچھ خاص فرق کیا رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا

سب کچھ بیکار سا بے معنی ہو جاتا ہے


کبھی کبھار

کچھ ایسے حالات و واقعات ہو جاتے ہیں

جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے

دماغ کے کسی کونے کھدرے میں بھولے سے بھی سما نہیں سکتے کہ ایسا ہو سکتا ہے


لیکن یہ حالات و واقعات جب پیش آتے ہیں


تو آپ کے اعصاب کو ہی شل کر دیتے ہیں

جس بات کو آپ سننا بھی گوارا نہ کرتے

اس بارے میں بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے


وہ بات سن کر آپ پر خامشی کی گھمبیرتا چھا جائے

اتنی گہری خامشی و سکوت

جیسا کہ موت آنے کے بعد انسان کا  بے جان جسم ہوتا ہے

آپ ہزار بار خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں

ہزار جتن کر کے خیالات کے اس آتش فشاں کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں

لیکن سب کچھ بے سود رہتا ہے


آپ لاکھ خود کو دلاسے دیتے ہیں کہ

نہیں یہ فقط ایک بھیانک خواب ہے

آنکھیں کھولنے پر سب ختم۔۔۔۔۔۔۔

سب کچھ ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر سے وہی پہلے والے لمحات لوٹ آئیں گے۔

پھر سے وہی پہلے والے حالات و واقعات ہو جائیں گے۔


لیکن ایسی خام خیالی و دل کو بہلانے والی انتہائی بچگانہ سی حرکت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔


تلخ حقیقت کا ناگ آپ کو اس طرح سے ڈستا ہے۔ کہ

اس کا زہر آپ کے رگ و پے میں سرایت کرتا جاتا ہے

پھر ازیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ آپ کا دل اچھل کر آپ کے حلق میں آ رہا ہوتا ہے

سانسیں آپ کی سینے میں اٹکنے لگتی ہیں

آپ کی نبض کی رفتار تھمنے لگتی ہیں

سانسیں بھی بوجھل ہونے لگ جاتی ہیں۔

آپ خود کو برف کی سلوں میں پڑا ہوا محسوس کرتے ہیں

زندگی کی تمام رنگینی و رعنائیاں ختم بے معنی و بیکار ہو جاتی ہیں


 اس اذیت کی شدت کی انتہاء پر پہنچنے کے بعد

آپ کا وہ احساس ہی مر جاتا ہے

ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ہے۔۔۔۔

اس کے ساتھ آپ کو وجود کا وہ شدید جذبات والا حصہ بھی مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

Monday, March 7, 2022

زندگی

زندگی


زندگی بس ایسے ہی ہے۔۔۔۔۔۔


کبھی خوشیاں اتنی کہ سنبھالے نہ سنبھلیں۔

کبھی غم، دکھ، تکلیفیں، رنج و الم اتنے کہ چور چور ہو جائیں۔


کبھی اپنائیت اتنی کہ خود پر کسی ولی عہد کا گمان ہونے لگ جائے۔

کبھی بے رُخی و بے اعتنائی اتنی ملے کے اپنا آپ درخت سے گرے زرد چُرمرائے ہوئے پتے سے بھی کم تر لگے۔


کبھی کئیر اتنی ملے کے سبھی آپ کو ہاتھ کا چھالہ بنا کر رکھیں۔

کبھی حالت اس نہج پر پہنچ جائیں کہ آپ کسی بیماری سے موت کے منہ میں جا رہے ہوں اور کوئی پانی کی ایک بوند آپ کے منہ میں ڈالنے والا نہ میسر ہو۔ 


کبھی مصروفیت اتنی کہ سر کُھجھانے کی فرصت نہ ملے۔ چائے، کافی و کھانا تک ٹھنڈا ہو جائے۔

کبھی فراغت اتنی میسر کہ ایک ایک لمحہ بھاری ہو جائے۔ چند لمحے صدیوں کی مانند لگیں۔


کبھی کھانے کو اتنا کچھ میسر کہ سب تھوڑا تھوڑا چکھنے کے باوجود بھی بہت کچھ باقی رہے۔

کبھی سوکھی روٹی کا ٹکڑا تک میسر نہ ہو۔

کبھی بٹوے میں اچھے خاصے پیسے ہونے کے باوجود ایک نوالہ تک خریدنا میسر نہ ہو۔


کبھی رونقیں، محفلیں، رنگینئیاں و رعنائیاں اتنی میسر کہ ہم ان سب سے تھک جائیں۔

کبھی تنہائی اتنی میسر کہ خود پر کسی پرانی آسیب زدہ حویلی و کھنڈر کا گمان ہونے لگے۔


کبھی اس فریب میں ہم خود انوالو ہو جاتے ہیں۔

کبھی حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔

کہ ہم اس سراب کے جالے میں ریشم کے کیڑے کی مانند یہ ریشم اپنے گرد خود بننے لگتے ہیں۔

حالانکہ علم ہوتے ہوئے بھی کہ ایک دن یہ ریشم ہمارے گلے کا پھندا بن کر ہماری سانس کی ڈوری توڑ دے گا۔


‏‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎بس زندگی یہی ہے۔

کبھی کبھار سب کچھ ایک Systemized ہو کر بھی ہم ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

Friday, November 5, 2021

چائے

 ‏‎‎‎‎‎‎چائے


‏جاڑے کی صبیح صُبح کی شفق و سُنہری نرم و گداز روپیلی دھوپ کی سُنہری کرنوں کی مانند ایک ایک سپ گدازیت سی بھر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

قوس و قزع کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے رگ و پے میں شگفتگی سی بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے انگ انگ میں سرور کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی مانند سُر بکھیر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے کا ایک ایک سپ زندگی کی تمام رنگینئینوں و رعنائیوں کی مانند بھرپور و جاندار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

آرٹسٹک لینڈ اسکیپ پر بکھرے رنگوں کے قوس و قزع کی مانند چائے ہمارے رگ و پے میں دھنک کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!


چائے چاہت سے ہی بنتی ہے۔

بنا چاہت کے وہ فقط ایک کھولتا ہوا پتی گھلا مشروب ہی ہو سکتا چاہے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کی چاشنی مزید نکھرتی و ابھرتی یے جب وہ دل سے بنائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا اروما مزید نکھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کی چاشنی مزید بڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کا رُومانس مزید نکھرتا ہے۔ اگر مٹی کی برتن میں بنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!

مٹی کے سوندھی سوندھی مہک کے بلئینڈ کے ساتھ چائے کا اروما کیا ہی شاندار ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


کُہر و دھند کی دبیز چادر اوڑھے جاڑےکی انتہائی دلکش، دلفریب و دل کے تاروں و سُروں کو بےاختیار چھیڑتی ملگجی سُرمئی سہ پہر۔۔۔۔۔۔۔!


بادِ نسیم و بادِ شمیم کے خُنک مُدھر جھونکوں کےساتھ گلاب وجیسمین کی بھیگی بھیگی بھینی بھینی مہک۔۔۔۔۔۔۔۔!


گاؤں میں آنگن میں بنے مٹی کے چولہے پہ لکڑیوں و اُپلوں سے آگ جلاتی بانکی سجیلی الہڑ مٹیار۔۔۔۔۔۔۔۔!


جو میدے و سیندور میں گُندھے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے لکڑیوں و اپلوں سے آگ جلاتی ہے۔ اور وقتا فوقتا آگ کی آنچ میں ارتعاش پیدا کرنے کو اس میں لکڑیاں و اُپلے شامل کرتی ہے۔


چٹختی لکڑیوں و اُپلوں کی سرخ و نیلگوں آنچ میں جولانی پیدا کرنے کیلئے میدے و سندور میں گندھے مخروطی انگلیوں والے بلور حنائی ہاتھوں کی حنا کا گہرا پرتو لیے پوروں میں پھونکنی تھام کر اس میں اپنی تمتماتی سانسوں کے زیر و بم سے کلیان راگ بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چاروں اور کومل و شُدھ سُروں کو بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

کبھی لہر میں آ کر سمپورن کی چاشنی رس گھول دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سمپورن راگ پر سُرخ و نیلگون شُعلے رقص کُنائی کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

تمتاتی سانسوں سے سرخ و نیلگوں شعلوں پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ وہ وجد میں آ کر بے خودی کی کیفیت میں آ کر مزید بڑھکتے ہیں۔ مسحور کُن کیفیت میں ان کی لپیٹیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھونکنی سے کومل و شدھ راگوں کے ساتھ کلیان راگ بکھیرنے کی وجہ سے دھواں بھی اس کی اور لپکتا ہے۔ 

جو سانس بن کر اس میں دھڑکنا چاہتا ہے۔ دھواں اس کی ستواں ناک و صراحی دار گردن میں سمونا چاہتا ہے جس سے اسے کھانسی سی آ جاتی ہے۔

صبیح جھیل سی گہری قرمزی آنکھوں میں ستارے سے جھلملانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


بکھری امبر زُلفوں میں چاندنی کے زرے بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس کے ستواں ناک پر عقیق کی پرتیں چڑھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


شہابی گال نیلگوں و سرخ شعلوں کی تمازت سے تمتما رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


جھیل سی گہری قُرمزی غزال آنکھوں میں شفق بکھر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جبین پر خُنکی کے باوجود بھی موتی بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس بانکی سجیلی الہڑ مٹیار کے میدے و سندور میں گندھے صبیح چہرے کے ساتھ ریشمی امبر زُلفوں کی چھیڑ خانیاں بھی بدستور جاری رہتی ہیں۔

جنہیں وہ اپنی حنائی مخروطی انگلیوں سے کانوں کی لو میں اڑوستی ہے لیکن وہ پھر سے اس کمزور قید سے راہِ فرار حاصل کر کے اس کے صبیح چہرے سے چھیڑ خانی شروع کر دیتی ہیں۔

بار بار سمیٹنے کے باوجود مزید بکھرنے والی شوخ و آوارہ لٹوں سے وہ زچ ہو کر انھیں ایسے ہی آوارہ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


سُبک رو نیلگوں و سُرخ شعلوں کی دھیمی آنچ پر کڑھتی چائے کے ساتھ اب اس بانکی ناری کے ہونٹوں پر اطمینان بھری جاندار مسکراہٹ سی آ جاتی ہے۔

اس کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا چاہِ زنخدان مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


مٹی کی دیگچی میں روپیلی روپ لیے بالائی کی پرت والے خالص دودھ کے کینوس پر پتی کے رنگوں کے سٹرونگ اسٹروکس بکھرنے لگتے ہیں۔ جو دودھ کو اپنے ہی رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ صبیح صبح پر سنہری مخملی رنگ چڑھنے لگتا ہے۔


بانکی سجیلی الہٹر مٹیار رنگوں کے جاندار و شاندار بلئینڈ میں خالص دیسی گھی کی مُدھر مہک لیے، بادام و گری و میوہ جات کی کاشیں خود میں سموئے خالص دیسی گڑ کی ڈلی اس میں ڈال دیتی ہے۔ گُڑ کی چاشنی سے چائے کی حلاوت و اُروما کو مزید نکھارتی ہے۔


دھیمی آنچ پر چائے کڑھتی رہتی ہے۔

ساتھ دھواں کی مُدھرتا بھی اس میں گھلتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


اُبال آنے پر بانکی ناری اپنی سانسوں کی مالا سے سحر طاری کر کے اس کو کم کرتی ہے۔

اس سحر سے مدہوش و بےخود ہو کر چائے مزید ابلتی ہے کہ برتن سے باہر چھلکنے کو بے تاب ہوتی ہے۔ مٹیار اپنے ہاتھوں میں قندوری تھام کر ہلاتی ہے۔ کبھی کپڑا سرک کر دہکتا برتن اس کی حنائی پوروں کی سُرخی بڑھا جاتا یے۔ کبھی کچھ بوندیں اس کے بلور حنائی ہاتھوں سے وصل کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے دھیمی آنچ پر کڑھتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سنہری رنگ مزید گہرے سے گہرا تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس پر سنہری بالائی کی پرت بھی مزید دبیز ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


الہڑ مٹیار اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے دیگچی تھام کر سانسوں کی مالا سے سنہری بالائی کی تہہ کو پیچھے کرتی ہے۔ بالائی کی دبیز تہہ اس بانکی ناری کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور میں ڈوب کر پیچھے سرکنے لگتی ہے۔ سنہری بالائی کی دبیز تہہ سرکنے پر چائے کو پیالے میں ڈال دیتی ہے۔ 


گلابی پیراہن زیبِ تن کیے و بانکی سجیلی الہٹر و نٹ کھٹ مٹیار سلیقے سے ڈوپٹہ سر پر جما کر گلابی آنچل کا ایک سرا ہونٹوں میں دبا کر گہرے ڈمپل کے ساتھ عُنابی ہونٹوں پر گہری مُسکان لیے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے چائے کا پیالہ تھماتی ہے۔


اس کے ان رمز و ناز، غمزہ و عشوہ نازیوں کے قاتلانہ وار کے ساتھ چائے کے ایک ایک سپ سے زندگی اپنی تمام تر جولانیوں، رنگینیوں و رعنائیوں سے مسکرانے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔!

Monday, November 1, 2021

گردابِ زندگی

گردابِ زندگی


زندگی۔۔۔۔۔۔!


‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎زندگی کبھی بھی ہمارے مطابق، ہماری منشاء، ہماری تمنا و آرزو، ہماری ترجیحات کے مطابق نہیں گزرتی۔۔۔۔۔۔!


ایک وقت ایسا آتا ہے کہ 

ناران کاغان کی رُومانوی پُرفضا کی مانند ہم پر مہربان ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر پلک جھپکتے ایسے انگڑائی لیتی ہے کہ 

ہمیں صحارا کے لق و دق تپتے صحرا میں بے سہارا پھینک دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جب آپ زندگی کے اس فیز پر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


تب سبھی چیزیں آپ کے مخالف رخ پر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ آپ کے مخالف دھارے پر بہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ چاہے جتنا مرضی ان لہروں کو چیر کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

یہ دھارا آپ کی کوشش و تگ و دو کے ساتھ ساتھ مزید گہری سے گہری تر ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


آہستہ آہستہ آپ کی ہمت و حوصلہ جواب دینے لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

آپ کے اعصاب شل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر اس تیز دھارا کے بہاؤ کے گرداب میں آپ کے مضبوطی سے جمے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی کبھار آپ منہ کے بل جا گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کبھی ایسے گرتے ہیں کہ اٹھنے کی سکت ہی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!

مفلوج زدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ اس بھنور میں جتنا مرضی ہاتھ پاؤں ماریں۔

جتنی مرضی کوششیں و جتن کر لیں۔

سب بے معنی و بیکار۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہر طرف فقط ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ ہی ہر حوالے سے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔

آپ پھر چاہے جتنا مرضی دُکھ، تکلیف، پریشانی میں ہوں۔

ان سبھی باتوں کو نظر انداز کر کے آپ کو مجرم و ہر بات کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


تب آپ بیشک وینٹی لیٹر پر ہوں یا جتنی مرضی کرئیٹیکل کنڈیشن پر پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کسی کو آپ کی اس کنڈیشن سے غرض نہیں ہوتی۔

کسی کو بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

آپ ہی فقط زمہ دار و قصوروار۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر نہ ہمیں کوئی راستہ نظر نہ آتا ہے نہ ہی منزل۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی ایک نوالہ حلق سے اتارنے کو میسر۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی حلق تر کرنے کو پانی کی اک بوند میسر۔۔۔۔۔۔!


ہم جُھلس جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہماری جلد تانبے کی مانند تپنے لگے جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


حلق میں خشک کانٹے چبھنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پاؤں میں چھالے بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


زندگی کی تمام رنگینئیاں و رعنائیاں و تابانیاں ہمارے لئے بالکل بے معنی، بیکار سی ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


زندگی بوجھل سی لگتی یے۔۔۔۔۔۔۔۔!

زندگی اک عذاب لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جینے کی تمنا کی کوئی بھی رمق باقی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


سانس تک لینا دوبھر ہو جاتا یے۔۔۔۔۔۔۔۔!

حلق میں ہر سانس کے ساتھ کیکٹس چبھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ایک ایسا عذاب ہمارے گلے کا پھندا بن جاتا یے کہ 

ہم نہ تو جی سکتے ہیں نہ ہی مر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی اپنی زندگی کو اس عذاب سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔! 

Saturday, October 16, 2021

سٹرائیک کی کتھا

 سٹرائیک کی کتھا


 ویسے کمال و حیرت ہے ان صنفِ نازک و نازک اندام ماہ جبینوں پہ۔۔۔۔۔۔۔۔!


 جو ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چل رہی تھیں بلکہ ہم سے بھی دو چار قدم آگے چل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ایسے تیز و تند موسم میں برقعے و سکارف میں لپٹی ماہ جبینئیں و حسینائیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


فضا بیک وقت کوئلوں کی کُوک سے۔۔۔۔۔۔۔۔!

کلئیوں کے چٹخنے و پھولوں کے کھلنے کی آوازوں سے گونج گونج جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔!


کہیں فضاؤں میں قوس قزح کے رنگ بکھیرتی ہنسی۔۔۔۔۔۔۔۔!

کہیں قہقہے فضا میں جلترنگ بکھیر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔!


کچھ نازک اندام و نفاست پسند ماہ جبینیں اپنے نفیس، عمدہ و خوبصورت ہینڈ بیگز سے مہکتے ٹشو پیپرز کو اپنی مخروطی انگلیوں میں تھام کر ان مہکتے ٹشوز میں شبنمی بوندوں کو قید کرنے سے پہلے اپنی جھیل سی گہری آنکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کسی کی نیلگوں، کسی کی کتئھی، کسی کی قرمزی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ان سے انتہائی دلفریب انداز میں ادھر ادھر چوکنہ ہرنیوں جیسی نظروں سے دیکھتی ہیں کہ کہیں کوئی ان ماہ رُخوں کی جلوہ افروزی سے لظف و اندوز و انسباط تو حاصل نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر اطمینان بخش انداز میں اپنی خوبصورت نازک اندام مخروطی انگلیوں سے اپنے ماہ رخ سے سکارف کا سرا سرکا کر انتہائی نفاست سے اپنے گُل رخ پہ بکھری شبنمی بوندوں، دھوپ کی تمازت سے تمتماتے شہابی گالوں، ستواں ناک، چاہ خنداں ٹھوڑی، انتہائی قرینے سے بنائے خمیدہ ابرؤوں، شفاف جبین کو اپنی مخروطی انگلیوں میں تھامے ٹشوز میں جذب کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ٹشوز اپنی عزت افزائی و خوش نصیبی پہ جھوم جھوم جاتے ہیں۔ لیکن وہ ماہ جبینیں انہیں زمین پہ پھینک دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور وہ ان کے ہاتھوں سے الوداعی انداز میِں رخصت ہوتے ان کے قدموں میں گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور کئی ماہ جبینوں کے قدموں تلے رندھتے ہوئے خاک و مٹی میں مل جاتے ہیں لیکن مسکرا رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


کئی ماہ جبینیں اپنے گُل رخوں پہ آئی شبنمی بوندوں، اپنی شفاف جبین، شہابی گالوں، ستواں ناک پہ پھوٹتی، چاہ خنداں پہ آئی شبنمی بوندوں کو اپنی نرم و نازک و شفاف مخروطی انگلیوں سے پونجھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


 تھوڑی دیر پہلے اپنی خوش قسمتی پہ رقص کرنے والی شبنمی بوندیں انتہائی بے بسی و لاچاری کی تصویر بنی ان ماہ جبینوں کی مخروطی انگلیوں سے الوداعی انداز میں رخصت ہوتی جیسے ہی زمین پر گرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

وہ ان ماہ جبینوں و گل رخوں کے قدموں تلے رندھ کر خاک و دھول کا حصہ بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


Tuesday, May 11, 2021

پیراہن تراش

 پیراہن تراش


اگر ہم پیراہن و قبا تراش ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


تو کرسٹل سانچے میں ڈھلے ہوئے اس بلور آبگینے کے ملبوس کی وضع قطع کو اس عمدگی سے ترتیب دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔! 


کہ ہماری فن کاریگری کو دیکھتے ہوئے پریاں اپنے ملبوس لیے ہماری اور آتیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


صبیح صُبح، شفق، قوس و قزح و زمرد سے رنگ لے کر ان کو اس گُل بدن کے پیراہن پہ دھنک کے رنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏ہم اس کے فراکوں میں گوٹہ کناری و سلمن ستاروں کی جھلمن سے ایسی ایسی نقاشی و آبگینے بکھیرتے کہ 

وہ ہمارا ملبوس زیب تن کیے پہروں سبک رو خراماں خراماں اٹہلاتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہم اس پری پیکر ناز نین و پری تمثال زہرہ جبین کے پیراہن کی تراش خراش ایسے کرتے کہ

پھولوں کی قبائیں کتر کے ان سے مینا کاری کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏کلیوں سے جلترنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


گلاب، جیسمین، موتیے و گیندے کی نوخیز کلئیوں کی گلکاریوں سے وہ گل بدن پہروں مہکتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


مخمور ہوکر سُبک رو مستانی چال چلتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس سرو قامت نازنین کیلئے ایسا زمرد پیراہن تیار کرتے کہ 

جس سےاس کی سروقامت اور نمایاں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


ملبوس زیب تن کرنے سے اس کی اٹھلاہٹ وہ کام کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔! 

جیسے بادِ صبا و بادِ نسیم کے مُدھر جھونکوں سے سرو جھومتے۔۔۔۔۔۔۔۔!

Monday, May 10, 2021

جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی

جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی


جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی
قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی


یَا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين
تیرا کروڑوں بصد شکر و احسان۔۔۔۔۔۔!

سلام پاکستان🇵🇰 

شکریہ پاکستان🇵🇰

آزادی مبارک🇵🇰

بابرکت و رحمتوں بھرےماہِ صیام کا 27 رمضان المبارک.....!

بے پناہ قربانیوں, ان تھک محنتوں و کاوشوں, دُعاؤں کی قبولیت کا مبارک دن....!

اللّٰہ رَبُّ العِزت کا اس خطہ ارض کے بسنے والے مسلمانوں کے لئے ماہ صیام کا تحفہ۔۔۔۔۔! 

ہمارا پیارا  پاکستان 🇵🇰

اسلام کا قلعہ۔۔۔۔۔۔! 

13 اگست 1947ء  وقت‏ 11:50 Pm
ریڈیو سے آواز بلند ہوتی ہے۔
یہ آل انڈیا لاہور یے آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجئیے۔


14 اگست 1947ء  وقت 12:05 Am
دوبارہ ریڈیو سے آواز بلند ہوتی ہے۔
یہ ریڈیو پاکستان🇵🇰 ہے۔ 
آپ کو "پاکستان🇵🇰" مبارک ہو۔


پاکستان معرض وجود میں آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔!


ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اور مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں نے شرمندہءِ تعبیر کر دیا۔۔۔۔۔۔!


لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اس وطنِ عزیز 🇵🇰 کی طرف سر پٹ بھاگتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


ماؤں بہنوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔

بھائی کو بھائی کے سامنے, بیٹوں کے سامنے ماں باپ کو, بوڑھے والدین کے سامنے ان کے جوان و کمسن لخت جگروں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔

ماؤں سے نھنے معصوم چھین کر ہوا میں اچھال کر ان کو نیزے کی انیوں میں پرویا گیا۔

کنوؤں میں زہر ڈال دیا گیا۔ جس سے اس پاک دھرتی کی طرف آنے والوں نے اپنے پیاروں کو اپنے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھا۔

ٹرین جب لاہور آکر رکتی تو دروازہ کھلتے ہی لاشوں کا ڈھیر اسٹیشن کے فرش پر گرتا۔ بوگیاں کی بوگیاں لاشوں سے بھری پڑی ہوتی۔

بلوائیوں کے حملوں کی وجہ سے پیارے اپنوں سے بچھڑ گئے۔

کچھ ادھر رہ گئے۔

کچھ راستے میں ہی گزر گئے۔ 

اور جو زندہ لاشیں پاکستان 🇵🇰 کے بارڈر پر پہنچتیں۔

وہ بے پناہ خوشی سے دوڑتے۔ 

اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔! کے نعرے لگاتے اس دھرتی 🇵🇰 کو چوم کر سجدہ ریز ہو جاتیں۔

کہ یا اللّٰہ تیرا شکر۔۔۔۔۔۔! ہم آج اپنے آزاد ملک 🇵🇰 میں آ گئے ہیں۔

یہ پاک دھرتی 🇵🇰 ہم نے خون کے دریا عبور کر کے ہم نے حاصل کی ہے۔۔۔۔۔!


یَا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين۔۔۔۔۔۔!

اس پاک دھرتی 🇵🇰 کو اپنی خاص الخاص حفظ و امان میں رکھیں۔۔۔۔۔۔!

اس پاک دھرتی 🇵🇰 کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا۔۔۔۔۔۔!

اس 🇵🇰 کے باسی اتحاد و پیار و محبت سے رہیں۔۔۔۔۔۔!

اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرما۔۔۔۔۔۔!

ساری دشمن قوتوں کے تمام حربوں کو نیست و نابود کرنے کی ہمت و جُرات عطا فرما۔۔۔۔۔!

آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔!

یا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ۔۔۔۔۔!


اے میرے وطن 🇵🇰 تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دم ہو
اے میرے وطن 🇵🇰  اے میرے وطن 🇵🇰
اے پاک چمن 🇵🇰 اے پاک چمن 🇵🇰


خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
(احمد ندیم قاسمی)


ہم تو مر جائیں گے اے ارضِ وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
(محسن نقوی)


LONG LIVE PAKISTAN 🇵🇰

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ زندہ باد 🇵🇰

قائد اعظم محمد علی جناحؒ زندہ باد 🇵🇰

پاکستان بنانے والے تمام مرد و خواتین لیڈران زندہ باد 🇵🇰

پاکستان بنانے کی کاوش میں شامل ہونے والا ہر فرد زندہ باد 🇵🇰

پاکستان پائندہ باد 🇵🇰

پاک آرمڈ فورسز زندہ باد 🇵🇰

Thursday, May 6, 2021

ماضی کے جھروکوں سے

 ماضی کے جھروکوں سے


پہلے جب نیلگوں امبر کے سائے تلے آوارہ شوخ بدلیوں کی ٹولیاں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی بوندیں بکھیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

تو ایسے رنگین و دلفریب موسم میں تمام نصف بہتروں کے دل میں مجازی خدا (شوہر نامدار) کے لئے وصل کی تمنا کی انگڑائیاں موجزن ہو جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

اور کئی تو دل میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور کچھ زیادہ اوور مطلب بہت زیادہ ٹچی ہو کر نین کٹورا چھلکا کر سوزوگداز بھری کوئل آواز میں ہوا کے دوش پہ سُر بکھیرنے لگ جاتی تھیں (صنفِ کرخت قسمت کے دھنی کے ان کی سماعتیں ایسے وقت سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ہر سنگر اسی گمان و خوش فہمی میں مبتلا رہتا یے کہ اس کے کلے میں تمام سُروں کو گھول کر گھٹی دی گئی تھی۔ جب تک اسے اس کی سُریلی آواز ریکارڈ کر کے اس کی سماعتوں کے گوش گزار نہ کر دی جائیں اور پھر اس کے ساکت ہونے یا فورا سے ڈیلیٹ کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا یے) 


آئے موسم رنگیلے سہانے

جیا نہیں مانے

تو چھٹی لے کے آ جا بالما ہو

جب بہتی ندیا شور کرے

میرا دل ملنے کو زور کرے


اور ایسے موسم میں جدید آلہ گفت و شنید (موبائل) و سوشل میڈیا کی بدولت نصف بہتر فٹ سے اپنے مجازی خدا کے کان کھانے کا نادر موقع کسی طور نہیں گنواتیں۔۔۔۔۔۔!

اور انھیں کیا معلوم ان کے شوہرِ نامدار اپنی کولیگز کے ساتھ خوش گپئیوں کے ساتھ ساتھ ان پہ شعروں کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں (اس بات کو زہن سے محو کیے کہ وہ ایک عدد نصف بہتر کے مجازی خدا بھی ہیں۔خیر ایسے موقعوں پہ ایسی بے محل باتیں یاد رکھنے کی فرصت کسے) 


کہ اس موسم میں کھڑوس سے کھڑوس صنفِ کرخت بھی گوگل میں آوارہ گردی کر کے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایسے ایسے اشعار گوش گزار فرماتے ہیں (بشرطیکہ اپنی نصف بہتر سے کوسوں دور)  کہ انگشت بدنداں۔ 


ایسے موقع پہ ان کی نصف بہتر ولن کی مانند انٹری فرما کر گل و گلزار و رنگینی کو لق و دق دشت میں تبدیل کرنے میں چنداں نہیں چونکتیں۔ 


صنف کرخت اس موقع پہ سب سے پہلے صلواتیں دیتیں ہیں آلہ گفت و شنید (موبائل) و ٹیکنالوجی کو۔۔۔۔۔


ان کا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم پتھروں کے دور میں سانسیں لے رہے ہوتے اور اس وقت راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا۔ 


اس وقت کومل و نٹ کھٹ الہڑ دوشیزہ کے ہمراہ موسمی پکوانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ 


خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ سو کام کے بہانے و بزی ہونے کا بہانہ بنائیں گے۔ 

میٹنگ و کام کے برڈن کا دکھڑا سنانے بیٹھ جائیں گے۔ 

لیکن کئی نصف بہتر پہ اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی ہانکے مطلب سنائے جا رہی ہوتی ہیں۔ 

صنفِ کرخت سامنے بیٹھی ماہ پارہ و ماہ جبین صنفِ نازک کے لئے مُسکان بکھیرے دانت کچکچا ریے ہوتے ہیں۔ 

ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آلہ گفت و شنید کو دیوار میں دے ماریں یا ادھر سے ہی اپنی نصف بہتر کی صراحی دار گردن کو گھونٹ ڈالیں۔ 


خیر۔۔۔۔۔۔! 

سب سے بہتر ہتھیار کا استعمال فرماتے ہوئے سائیڈ پہ ہو کر اس کے فراق میں تڑپنے و غمِ روزگار کا شکوہ و جلدی آنے کا وعدہ اور سامنے بیٹھی دوشیزہ کے لئے گوگل سے چھان پھٹک کے نکالے اشعار چار و ناچار اپنی نصف بہتر کی سماعتوں کی نذر فرما کر گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے۔ 


نصف بہتر بھی اس موسم میں کرُکرے پکوڑے کباب فرائز کی ٹرے تل کر سکون سے بیٹھ کر سبھی کچھ اکیلے ہی نوش فرمانے لگ جاتی ہیں ۔ا

ور بعد میں اپنے طول و عرض کی وسعت کا سرے سے انکار فرما دیتی ہیں۔

کہ میں پہلے کی طرح سمارٹ و دبلی پتلی سی ہوں۔ 

بس آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔

میرے جیسی پری تمثال و سمارٹ نصف بہتر کے بجائے اب آپ کی نظر میں کوئی اور چڑیل سما گئی ہے۔ 

پھر ایسے موقعوں پہ جو کچھ سین چلتا ہے۔ 

کہانی گھر گھر کی۔۔۔۔۔۔!

وہ سبھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

کہ کچھ بال سفید اور کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔!


اب لاک ڈاؤن کا قصہ کیا سنانا سبھی ایک دوسرے سے مردمِ بیزار کیا اکتائے کیا بھاؤ کھائے بیٹھے ہیں اور صنفِ کرخت بیچارے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر ٹھنڈی آئیں بھر رہے ہیں۔

 کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے فرمائشی پروگرام کرنے سے حاتم طائی کی پشتوں پہ سو بار احسان جتا کر انھیں ملنے والی دال روٹی سے بھی جائیں گے۔

کیونکہ باہر سے کچھ آرڈر کرنے سے بھی رہے۔ 

کہیں مرغ مسلم یا کڑھائی، تکے و کباب کے چکروں میں خود ہی کہیں مرغا نہ بنے ہوں۔۔۔۔۔۔!


کچھ صنفِ کرخت کو تمام ماہ جبینوں، نازنینوں، ماہ رخوں و گل رخ و چندے آفتاب و چندے ماہتاب حسیناؤں کی یاد میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور ہر طرف اِدھر اُدھر یہاں وہاں نظر آتی اپنی نصف بہتر کو دیکھ کر مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔


یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 

Wednesday, May 5, 2021

سرابِ زندگی

سرابِ زندگی 

 

 ‏ہم چاہے جتنا مرضی کسی کی زات کا بہت ہی اہم حصہ ہوں۔۔۔۔۔۔!

کوئی ہمارے بنا ایک پل بھی نہ رہ سکتا ہو۔۔۔۔۔۔!

ہم کسی کا سب کچھ ہوں یا کوئی ہمارے دل و دماغ میں بستا ہو۔۔۔۔۔۔!


اس کے یا ہمارے اردگرد خوشیوں، رونقوں و گہماگہمی کا سماں جب بھی میسر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

ان لمحات و جھمئیلوں میں ہم یا وہ فراموش ہو ہی جاتے ہیں۔


اگر کسی لمحے یاد آ بھی جاتی ہے تو سر جھٹک کر ان چکا چوند روشنئیوں، رنگینئیوں و رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!



وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾

’’اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘


ایک ماں باپ کے لئے اس کا بیٹا یا بیٹی، بچوں کے لئے والدین، بھائی بہن کے لئے ان کے بہن بھائی، میاں بیوی جو ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔

جن کے بنا زندگی کی رونقیں پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی ہیں۔

یہ تب تک ہی ہوتا ہے۔ جب تک سانسوں کہ روانی ہے۔

جیسے ہی سانسوں کی روانی کا ربط ٹوٹا۔۔۔۔۔۔۔

سب کچھ ختم۔۔۔۔۔۔!


اس کے بعد آپ کے وہی پیارے جو آپ کو کبھی اپنے سے اک پل بھی جدا کرنے سے بے چین و بیقرار ہو جاتے تھے۔

آپ کی واپسی کی راہیں تکتے تھے۔

آپ کی واپسی پر دیر ہو جانے سے آپ کو بار بار جلدی آنے کی تاکید کرتے تھے۔

ہمیشہ کے لئے کبھی نہ لوٹنے کے لئے آپ کو روانہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


سب سے بڑی تلخ حقیقت۔۔۔۔۔۔! 

کہ آپ کو دفنانے کے بعد کوئی آپ کے پاس ایک گھنٹہ رکنا تو درکنار چند منٹ بھی بھی نہیں رکتا۔۔۔۔۔۔!

سب جلدک سے واپسی کی راہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

کچھ آپ کے بہت قریبی تو جنازہ گاہ سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

آپ کو دفنانے تک بھی انتظار نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!


فقط چند گھنٹوں کے بعد آپ کی جدائی میں رونے کی شدت میں کمی آتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!


وقت سب سے بڑا پھاہا ہے۔۔۔۔۔۔!

سارے زخم دکھ درد وقت کے ساتھ ساتھ مندمل کرتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!


کچھ دنوں تک سب فراموش۔۔۔۔۔۔!


سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف و مشغول۔۔۔۔۔۔!


آجکل تو فوتیدگی بھی ایک ایونٹ ہے۔

گیدرنگ کا۔ سب اکھٹے ہوتے ہیں۔ سب کے ملن کا۔۔۔۔۔۔!

ادھر میت اٹھی ادھر کھانے کے دستر خوان بچھ گئے۔ اس کے بعد چائے کے دور چلتے ہیں۔ گپ شپ، ہنسی مذاق حتی کہ قہقہے تک لگانے کو مذائقہ نہیں سمجھا  جاتا۔

گروپس کی شکل میں دکھ سکھ شئیر کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


پھر قل شریف کا ختم اس سے بھی بڑا ایونٹ ہوتا ہے۔

نیا جوڑا زیبِ تن کر کے زیادہ ثواب کی نیت سے شمولیت کرنا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔

دستر خوان بچھا، کھایا پیا و واپسی کی راہ سدھاری۔۔۔۔۔۔!


برس دو برس تک بمشکل کسی شادی بیاہ و ایونٹ پر آپ کی یاد میں آنسو بہا لیے جاتے ہیں وہ بھی فقط چند گھڑیوں کے لئے۔۔۔۔۔۔!

اس کے بعد وہی دنیا کی رنگینئیاں و رعنائیاں۔۔۔۔۔۔!


برس 2-3 گزرنے کے بعد کسی خوشی کے موقع پر اگر آپ یاد آ بھی گئے تو سر جھٹک کر آپ کی یاد کو محو کر کے خوشیوں میں مصروف۔۔۔۔۔۔!

مبادا خوشی کے پل آپ کی نذر نہ ہو جائیں کہیں۔۔۔۔۔۔!


لائف میں کچھ بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!


بیشک ہر چیز کو فنا ہے۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, May 4, 2021

بیگانگی و اجنبیت

بیگانگی و اجنبیت

 

 ‏ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی کیلئے اپنا آپ سب کچھ تیاگ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اپنا سب کچھ۔۔۔۔۔۔!

بغیر کسی پرواہ و فکر کے۔۔۔۔۔۔!


اپنی ساری خوشیاں اس کی ایک مُسکان پر وار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


اس کیلئے زندگی کی تمام خوشیوں، رنگینئیوں، رعنائیوں، ہر کسی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


ہر چیز سے بیزار۔۔۔۔۔۔!


اپنے آپ کی بھی فکر و ہوش نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔!


اس کے زرا سا روٹھ جانے پر دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


سانسیں بوجھل و اٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


‏تمام دنیا کی خوشیاں، رونقیں، رنگینئیاں و رعنائیاں سب بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


بہار بھی خزاں کی مانند معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!

جیسے تپتے صحرا میں کئی دنوں سے پیاسے پھر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


پہروں اس کے ہونٹوں پر مسکان بکھیرنے کیلئے جتنوں میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اس کی مُسکان لوٹنے سے تب اٹکی سانس بحال ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!

 

‏پھر کبھی اس کی بےاعتنائی سے ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے

کہ اس شخص سے ہم ایسے بیگانے، ایسے پتھر دل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کہ پھر وہ چنداں بھی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔۔۔!


اس کے آنسو، اس کی تمام باتیں، اس کی کاوشیں، تمام جتن، ہزار صفائیاں و تاویلیں۔۔۔۔۔۔!

سب بے معنی، سب بیکار۔۔۔۔۔۔!


ہماری زات پر چنداں بھی اثر نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!

Friday, April 30, 2021

غلط فہمی

غلط فہمی 


 کبھی کبھار حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔ 

کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کیلئے تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


غیر ارادی طور پر کسی کی دل آزاری کا باعث بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی کی خوشیاں آپ کے کسی غیر ارادی اقدام کی بدولت مانند پڑ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی محفل میں آپ کے کسی غیر ارادی فعل کی بدولت اس محفل کی رونقیں و روشنئیاں ماند سی پڑ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

 تناؤ کسی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!


‏کبھی کبھار کسی واقعہ کی حقیقت جانے بنا ہی ہم بدگمانی کا عفریت پال لیتے ہیں۔ 

یا کسی بیتے واقعہ کو درمیان میں لا کر الجھے ہوئے دھاگے کی ڈوری کا سرا تھام کر سلجھانے کے بجائے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کو بھی اس میں مزید الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ 

جو ان پلوں کی اپنائیت، شگفتگی و مسرتوں کو نگل جاتا یے۔

دونوں طرف جھنجھلاہٹ، غصہ، بے کیف و بوجھل پن، اکتاہٹ طاری ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


اس سےکہیں زیادہ بہتر ہے کہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس غلط فہمی کو ختم کرنے کی مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔!

اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔!


اپنی انانیت کے بت کو چند گھڑیوں کے لئے سائیڈ پر رکھ کر اس شخص کے تمام گلے شکوے، کڑوی کسیلی باتیں سن لینی چاہئیں۔

کوشش کریں کہ بغیر وقت ضائع کیے بنا اپنی جسٹیفیکیشنز لازمی دے دیں۔


اگر آپ دوسری سائیڈ پر ہیں تو اگلےکی ساری بات لازمی سن لیں۔۔۔۔۔۔!


جتنی جلدی سے جلدی ممکن ہو اس خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔!


رشتوں کی اپنائیت کو مزید گہرا و مضبوط کریں۔۔۔۔۔۔!


ایسا کرنے سے اس شخص کے دل کا سارا غبار و کثافت دھل کر کرسٹل کی مانند شفاف ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!


زندگی کی مُسکان لوٹ آتی ہے۔۔۔۔۔۔!

Wednesday, April 28, 2021

وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو

 "وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو"


’’سورة البقرة‘‘ کی اس آیت مبارکہ


﴿هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ ﴿١٨٧﴾

’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘


میاں بیوی کے رشتے کے لئے ایک جہاں آباد ہے۔۔۔۔۔۔!


اس ازدواجی رشتہ کے کینوس پر بکھرے اسکیچ میں حقیقت کے رنگ بکھیرنے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کینوس ہمارے پاس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

اور رنگ بھی ہمارے پاس۔۔۔۔۔۔!


یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس اسکیچ کو ایسے ہی رہنے دینا۔۔۔۔۔۔۔!


اس میں سیاہی بکھیرنی یا پیار، انسیت، محبت، کئیر، اعتماد، شائستہ لہجے کے گلئیٹرز سے اس کینوس کو اچھوتا، دلفریب، خوشنما، خوش کُن و مسحور بنانا یے۔۔۔۔۔۔!


چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت کچھ حقیقی خوش نما رنگ ڈھالے جاسکتے۔۔۔۔۔۔!

فقط تھوڑی سی کئیر سے۔۔۔۔۔۔!

اپنی انانیت کےخول سے نکل کر اگر اس کو نصف بہتر تسلیم کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔!


اگر اس لباس کو اپنی خوش نصیبی و خوش قسمتی تصور کر لیا جائے تو۔۔۔۔۔۔!


یہ سب کچھ ایکدم سے چٹکی بجاتے نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!

اس کے لئے برسوں کی کڑی تپسیا چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


ہاں کچھ لوگ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ 

کہ جن کی کیمسٹری فقط چند دن کی رفاقت سے اتنی گہری و پختہ ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!

ان کے بانڈز ایسے مل جاتے ہیں۔ جیسے وہ ازلوں سے فقط ایک دوسرے کے لئے ہی ڈھالے گئے تھے۔۔۔۔۔۔!


جب ہم اپنی انانیت کے خول سے نکل کر اس بات کو کنسیڈر کر لیں گے۔ 

کہ اس نے مجھے بھی تو میری تمام خامیوں سمیت قبول کر لیا ہے۔ 

تو میں کیوں اس کی زات کو اس کی تمام خامیوں کے ساتھ تسلیم نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔!


اس رشتے میں ایک دوسرے کے لئے بہت زیادہ لچک کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔!

جب ایک غصہ کر رہا ہو، چیخ چلا رہا ہو تو دوسرے کو اس وقت خامشی کا روپ دھار لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔!


بعض اوقات اگلا غلط بھی ہوتا ہے۔ 

لیکن ہمارے اس وقت آگے سے چیخنے چلانے کے بجائے خامشی سادھے رہنے سے یا اپنی پوزیشن واضح کر دینے سے اس شخص پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔!


ہاں یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایسے موقعوں پر ہماری دی جانے والی ہر وضاحت ہمارے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ 

لیکن ہماری اس وقت کی خامشی اس پر گہری چھاپ ضرور ڈال دیتی ہے۔۔۔۔۔۔!


جب ہم چاہ رہے ہوتے ہیں دوسرا بھی بولے، چیخے چلائے۔۔۔۔۔۔۔

کچھ وقت کے بعد اس کو لازمی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ آپ سے بے دلی سے ہی سہی معدزت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

یا باتوں باتوں میں آپ سے ہم کلامی کی کوشش کرتا یے۔۔۔۔۔۔!


کبھی کبھار دوسرے اینڈ پر ہمیں بالکل نظر انداز بھی کر دیا جاتا یے۔۔۔۔۔۔!

لیکن ہمارے اسی طرح کے اس کے حوالے سے روزمرہ کے کاموں کی روٹین سے اس کو اپنا یہ انداز بدلنے پر مجبور ضرور کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


دو مختلف مزاج، مختلف دنیاؤں کے باسی فقط 3 بول پڑھ کر ایک دھاگے میں پرو دئیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


یہ رشتہ بیک وقت مضبوط و نازکی کے مابین ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

مضبوط ایسا کہ اس سے نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

اور نازک ایسا کہ جیسے فقط چند لفظوں سے لباس بن گیا تھا ایسے ہی فقط چند بولوں سے یہ چٹان کی مانند مضبوط رشتہ دیمک زدہ کواڑ کی مانند ایک لمحے میں زمین بوس۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ ختم۔۔۔۔۔۔!


ایک دوسرے کی زات کو تسلیم کرن۔

اس کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔


آپ پر منحصر ہے۔۔۔۔۔۔!

کہ آپ اس رشتے کو مزید مضبوط، گہرا بنانا چاہتے ہیں۔

 یا اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر اپنی قسمت کا رونا روتے تمام عمر بتا دیں۔۔۔۔۔۔!

Voluntary / Retiring Pension of Govt Servants

Voluntary / Retiring Pension  of Govt Servants