Search This Blog

Showing posts with label چائے،. Show all posts
Showing posts with label چائے،. Show all posts

Friday, November 5, 2021

چائے

 ‏‎‎‎‎‎‎چائے


‏جاڑے کی صبیح صُبح کی شفق و سُنہری نرم و گداز روپیلی دھوپ کی سُنہری کرنوں کی مانند ایک ایک سپ گدازیت سی بھر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

قوس و قزع کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے رگ و پے میں شگفتگی سی بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے انگ انگ میں سرور کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی مانند سُر بکھیر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے کا ایک ایک سپ زندگی کی تمام رنگینئینوں و رعنائیوں کی مانند بھرپور و جاندار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

آرٹسٹک لینڈ اسکیپ پر بکھرے رنگوں کے قوس و قزع کی مانند چائے ہمارے رگ و پے میں دھنک کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!


چائے چاہت سے ہی بنتی ہے۔

بنا چاہت کے وہ فقط ایک کھولتا ہوا پتی گھلا مشروب ہی ہو سکتا چاہے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کی چاشنی مزید نکھرتی و ابھرتی یے جب وہ دل سے بنائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا اروما مزید نکھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کی چاشنی مزید بڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کا رُومانس مزید نکھرتا ہے۔ اگر مٹی کی برتن میں بنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!

مٹی کے سوندھی سوندھی مہک کے بلئینڈ کے ساتھ چائے کا اروما کیا ہی شاندار ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


کُہر و دھند کی دبیز چادر اوڑھے جاڑےکی انتہائی دلکش، دلفریب و دل کے تاروں و سُروں کو بےاختیار چھیڑتی ملگجی سُرمئی سہ پہر۔۔۔۔۔۔۔!


بادِ نسیم و بادِ شمیم کے خُنک مُدھر جھونکوں کےساتھ گلاب وجیسمین کی بھیگی بھیگی بھینی بھینی مہک۔۔۔۔۔۔۔۔!


گاؤں میں آنگن میں بنے مٹی کے چولہے پہ لکڑیوں و اُپلوں سے آگ جلاتی بانکی سجیلی الہڑ مٹیار۔۔۔۔۔۔۔۔!


جو میدے و سیندور میں گُندھے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے لکڑیوں و اپلوں سے آگ جلاتی ہے۔ اور وقتا فوقتا آگ کی آنچ میں ارتعاش پیدا کرنے کو اس میں لکڑیاں و اُپلے شامل کرتی ہے۔


چٹختی لکڑیوں و اُپلوں کی سرخ و نیلگوں آنچ میں جولانی پیدا کرنے کیلئے میدے و سندور میں گندھے مخروطی انگلیوں والے بلور حنائی ہاتھوں کی حنا کا گہرا پرتو لیے پوروں میں پھونکنی تھام کر اس میں اپنی تمتماتی سانسوں کے زیر و بم سے کلیان راگ بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چاروں اور کومل و شُدھ سُروں کو بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

کبھی لہر میں آ کر سمپورن کی چاشنی رس گھول دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سمپورن راگ پر سُرخ و نیلگون شُعلے رقص کُنائی کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

تمتاتی سانسوں سے سرخ و نیلگوں شعلوں پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ وہ وجد میں آ کر بے خودی کی کیفیت میں آ کر مزید بڑھکتے ہیں۔ مسحور کُن کیفیت میں ان کی لپیٹیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھونکنی سے کومل و شدھ راگوں کے ساتھ کلیان راگ بکھیرنے کی وجہ سے دھواں بھی اس کی اور لپکتا ہے۔ 

جو سانس بن کر اس میں دھڑکنا چاہتا ہے۔ دھواں اس کی ستواں ناک و صراحی دار گردن میں سمونا چاہتا ہے جس سے اسے کھانسی سی آ جاتی ہے۔

صبیح جھیل سی گہری قرمزی آنکھوں میں ستارے سے جھلملانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


بکھری امبر زُلفوں میں چاندنی کے زرے بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس کے ستواں ناک پر عقیق کی پرتیں چڑھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


شہابی گال نیلگوں و سرخ شعلوں کی تمازت سے تمتما رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


جھیل سی گہری قُرمزی غزال آنکھوں میں شفق بکھر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جبین پر خُنکی کے باوجود بھی موتی بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس بانکی سجیلی الہڑ مٹیار کے میدے و سندور میں گندھے صبیح چہرے کے ساتھ ریشمی امبر زُلفوں کی چھیڑ خانیاں بھی بدستور جاری رہتی ہیں۔

جنہیں وہ اپنی حنائی مخروطی انگلیوں سے کانوں کی لو میں اڑوستی ہے لیکن وہ پھر سے اس کمزور قید سے راہِ فرار حاصل کر کے اس کے صبیح چہرے سے چھیڑ خانی شروع کر دیتی ہیں۔

بار بار سمیٹنے کے باوجود مزید بکھرنے والی شوخ و آوارہ لٹوں سے وہ زچ ہو کر انھیں ایسے ہی آوارہ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


سُبک رو نیلگوں و سُرخ شعلوں کی دھیمی آنچ پر کڑھتی چائے کے ساتھ اب اس بانکی ناری کے ہونٹوں پر اطمینان بھری جاندار مسکراہٹ سی آ جاتی ہے۔

اس کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا چاہِ زنخدان مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


مٹی کی دیگچی میں روپیلی روپ لیے بالائی کی پرت والے خالص دودھ کے کینوس پر پتی کے رنگوں کے سٹرونگ اسٹروکس بکھرنے لگتے ہیں۔ جو دودھ کو اپنے ہی رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ صبیح صبح پر سنہری مخملی رنگ چڑھنے لگتا ہے۔


بانکی سجیلی الہٹر مٹیار رنگوں کے جاندار و شاندار بلئینڈ میں خالص دیسی گھی کی مُدھر مہک لیے، بادام و گری و میوہ جات کی کاشیں خود میں سموئے خالص دیسی گڑ کی ڈلی اس میں ڈال دیتی ہے۔ گُڑ کی چاشنی سے چائے کی حلاوت و اُروما کو مزید نکھارتی ہے۔


دھیمی آنچ پر چائے کڑھتی رہتی ہے۔

ساتھ دھواں کی مُدھرتا بھی اس میں گھلتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


اُبال آنے پر بانکی ناری اپنی سانسوں کی مالا سے سحر طاری کر کے اس کو کم کرتی ہے۔

اس سحر سے مدہوش و بےخود ہو کر چائے مزید ابلتی ہے کہ برتن سے باہر چھلکنے کو بے تاب ہوتی ہے۔ مٹیار اپنے ہاتھوں میں قندوری تھام کر ہلاتی ہے۔ کبھی کپڑا سرک کر دہکتا برتن اس کی حنائی پوروں کی سُرخی بڑھا جاتا یے۔ کبھی کچھ بوندیں اس کے بلور حنائی ہاتھوں سے وصل کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے دھیمی آنچ پر کڑھتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سنہری رنگ مزید گہرے سے گہرا تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس پر سنہری بالائی کی پرت بھی مزید دبیز ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


الہڑ مٹیار اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے دیگچی تھام کر سانسوں کی مالا سے سنہری بالائی کی تہہ کو پیچھے کرتی ہے۔ بالائی کی دبیز تہہ اس بانکی ناری کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور میں ڈوب کر پیچھے سرکنے لگتی ہے۔ سنہری بالائی کی دبیز تہہ سرکنے پر چائے کو پیالے میں ڈال دیتی ہے۔ 


گلابی پیراہن زیبِ تن کیے و بانکی سجیلی الہٹر و نٹ کھٹ مٹیار سلیقے سے ڈوپٹہ سر پر جما کر گلابی آنچل کا ایک سرا ہونٹوں میں دبا کر گہرے ڈمپل کے ساتھ عُنابی ہونٹوں پر گہری مُسکان لیے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے چائے کا پیالہ تھماتی ہے۔


اس کے ان رمز و ناز، غمزہ و عشوہ نازیوں کے قاتلانہ وار کے ساتھ چائے کے ایک ایک سپ سے زندگی اپنی تمام تر جولانیوں، رنگینیوں و رعنائیوں سے مسکرانے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔!

Voluntary / Retiring Pension of Govt Servants

Voluntary / Retiring Pension  of Govt Servants