"کالج برائے خواتین"
"گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن"
مرد چاہے جتنی بھی ایج کے ہو جائیں ان کے لئے
"کالج فار بوائز" ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔!
اس کے برعکس لڑکیاں جیسے ہی میٹرک پاس کیا خواتین ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
"کالج برائے خواتین" "گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن"
وہ لڑکیاں جو بے صبری و بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں
کہ کب کالج لائف گزارنے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔
وہ ان دنوں کو انجوائے کرنے کے سنہری سپنے بنتی رہتی ہیں۔
ایڈمیشن کے لئے جونہی لڑکیاں پہلے دن گھر سے خوب بن سنور کر، شاداں و فرحان نکلتی ہیں۔
جن کی نظریں اس کالج بورڈ پہ نہیں پڑتی۔
وہ خوشی خوشی کالج کے تمام ڈیپارٹمنٹس و کوریڈورز، لانز میں خوشی خوشی ہرنیوں کی مانند قلانچیں بھرتیں، خراماں خراماں سُبک رو اِدھر سے اُدھر چہل قدمی کر رہی ہیں۔
نئی فرینڈز بنا رہی ہیں۔
خوش گپیاں ہانک رہی ہیں۔
کینٹین میں جوس، بوتلیں و سموسے، کوکیز و چائے کے کپ اڑا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔!
وہ جن کی نظر غلطی سے جیسے ہی کالج گیٹ کے عین اوپر بورڈ پر پڑتی ہے
جس پہ جلی حروف سے لکھا ہوتا ہے
"کالج برائے خواتین"
تو ان کے سارے ارمان جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔
شاید انہی موقعوں کے لئے وہ گانا بنا ہو گا۔
دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!
اسی وجہ سے شاید کہا گیا ہے کہ کچھ موقعوں پہ لاعلمی ہی بہتر ہے۔
بار بار ان کی نظروں کے سامنے بورڈ جس پر جلی حروف میں کنداں "کالج برائے خواتین" لکھا نظر آ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ادھر سے ادھر بے دلی سے کالج کے در و دیواروں کو یاس و امید کا مرقع بنی نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
جن پہ زیادہ اثر ہوتا ہے وہ نظروں سے کالج کے کوریڈورز, ڈیپارٹمنٹس, لانز کو ناپ رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
اسی سبب کلئیریکل آفس میں بھی گم سم نظر آتی ہیں اور کئی تو کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا ایڈمیشن فارم لینے کے بجائے کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا فارم لے آتی ہیں۔
ان کا بس نہیں چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ سے جان چھڑا کر جلدی جلدی ہوا کے رتھ پر سوار ہو کر گھر پہنچ کر سکون کی سانس لیں۔۔۔۔۔۔!
جونہی وہ گھر پہنچتی ہیں کالج فائل، ایڈمیشن فارم، ہینڈ بیگ غصے سے پٹخ دیتی ہیں۔
گھر والے محترمہ کے ایٹیچیوڈ کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔
ہائے ہائے۔۔۔۔۔۔!
بے چاری کو پتا نہیں کتنی مشکلوں سے فارم ملا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
پہلا دن تھا نہ جان نہ پہچان پتا نہیں کہاں کہاں ماری ماری پھرتی رہی ہو گی۔۔۔۔۔۔
کوئی پانی کا گلاس تو لا کے دو۔۔۔۔۔۔!
وہ محترمہ غائب دماغی سے بس جی ہوں، ہاں جی، جی ہاں، ہوں ہوں میں جواب دے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔!
اگر کوئی بھائی غلطی سے تنگ کر لے جواب ندارد۔۔۔۔۔۔!
کہ لگتا محترمہ ابھی تک کالج کے سحر میں جکڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔!
اور مارے شامت اعمال کے اگر وہ ایڈمیشن فارم بھی اٹھا کے دیکھ لیں تو فلک شگاف قہقہے۔۔۔۔۔۔!
گھر والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں
اے لو۔۔۔۔۔۔! انہیں اب کیا ہو گیا؟
ایک تو یہ محترمہ چپ کا روزہ بنی بیٹھی ہیں اور ادھر یہ برخودار ہنسے چلے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔!
وہ موصوف بجائے بتانے کے بس وہ ایڈمیشن فارم باقی بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔
اور پھر ہر طرف سے قہقہوں کے طوفان۔۔۔۔۔۔!
ایسے میں والدہ محترمہ سب کی شان میں جیسے ہی قصیدے پڑھتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
تو اصل بات ان کے گوش گزار کرتے ہیں۔
تب جا کہ محترمہ بھی اصل حقیقت سے آشنا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
بس پھر کیا ان بھائی صاحب کی شامت نہیں وہ آگے آگے اور۔۔۔۔۔۔!
جب موصوف کسی طرح بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتے تو وہ رونے بیٹھ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
ایک دفعہ پھر والدہ سب کی شان میں قصیدے پڑھتی ہیں اور ان محترمہ کو دلاسے دیتی ہیں کہ کوئی بات نہیں میری بچی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پہ نہیں لیتے۔۔۔۔۔۔!
وہ محترمہ ان منحوس لمحات کو کوس رہی ہوتی ہیں جب ان کی نظر اس بورڈ پہ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔!
پھر کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ بس کسی طرح اس منحوس بورڈ پہ نظر نہ پڑے۔۔۔۔۔۔!
اگر کبھی غلطی سے نظر کبھی پڑ بھی جائے تو فورا اس سے منہ موڑ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
گھر سے کلاس بنک کرنے کا منصوبہ بنا کر اور اس کو سہیلیوں کے گوشِ گزار کر کے قلبِ مطمئنہ و شاداں و فرحان سے اگلے دن جیسے ہی کالج گیٹ پر پہنچتی ہیں کالج بورڈ پر نظر پڑتے ہی یک دم ساری پلاننگ دھبڑ دھوس و مزہ کرکرا۔۔۔۔۔۔!
کئہیوں کا تو بس نہیں چلتا کہ اس منحوس بورڈ کو اکھاڑ پھینکیں اور میونسپٹی کا ٹرک اسے کہیں دور پھینک آئے۔۔۔۔۔۔!
اس کی جگہ
"کالج فار گرلز" "لڑکیوں کا کالج" "کالج فار ٹین ایجر گرلز" "کالج فار انڈر 15 گرلز" "کالج فار انڈر 17 گرلز"
کے جلی حروف سے خوشنما بورڈ اپنے ہاتھوں آویزاں کر دیں۔۔۔۔۔۔!
جس کی تذئین و آرائش وہ خود اپنے ہاتھوں سے جدید خطوط کے مطابق استوار کریں۔۔۔۔۔۔!
No comments:
Post a Comment