Search This Blog

Showing posts with label MyUrduExcerpt. Show all posts
Showing posts with label MyUrduExcerpt. Show all posts

Thursday, April 11, 2024

بیچلرز سپنوں کے لامتناہی سلسلے

بیچلرز سپنوں کے لامتناہی سلسلے


یا اللَّه 

میری امی اتنی گرمی میں تپتے کچن میں اکیلے افطاری بناتی ہیں

انھیں جلدی سے افطاری بنانے میں ہاتھ بٹانے والی بہو عطا فرما۔

آمین ثم آمین 


تمام بیچلرز Bachelor's دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آمین بولیں

آمین ثم آمین

آمین ثم آمین

اور روزے دار ہونے کی وجہ سے بار بار اس کو دہراتے ہوئے شدتِ دل سے آمین بولیں۔

تاکہ جلد از جلد قبولیت نصیب ہو۔

اور معجزات کا کیا پتا۔۔۔۔۔؟؟؟


آپ کو چند دن بعد اسی چاند رات کو اپنی شاپنگ کے ساتھ ساتھ کسی کے ساتھ شاپنگ کرنی پڑ جائے 

(خیر اس بات یہ زیادہ گہرائی پہ جانے کی اور دل پہ لے جانے کی زیادہ ضرورت نہیں 

کیونکہ مشرقی لڑکے ہونے کی وجہ سے مشرقیت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

یہ اور بات ہے کہ ایسی شاپنگ کا موقع ملنا ایسے ہی میسر ہوتا ہے۔۔۔۔ 

جیسے آلہ دین کا چراغ ملنا)


لیکن خیر۔۔۔۔۔۔ 

کوئی بات نہیں۔۔۔۔




اگلی چاند رات تک اپنے چاند کے ساتھ جی بھر کے شاپنگ کرنے کی اس نیک تمنا کو موخر کردیں۔۔۔۔۔۔


کیونکہ مشرقیت کے تقاضوں کی وجہ سے یہ بات تو خارج از امکان ہے یعنی کہ 

ابھی بات کو ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے 

اور موصوف خوش فہمیوں کے جزیروں میں ٹہل رہے ہیں۔۔۔۔۔


شاپنگ وہ بھی ان کے ساتھ۔۔۔۔۔


شاپنگ کے بعد آمنے سامنے بیٹھ کر چائے کے سپ۔۔۔۔۔

(اُف یہ منظرکشی سوچنے میں کتنی دلکش و حسین ہے۔ 

جب کینوس پہ رنگ بکھریں گے۔ تو کیا منظر ہو گا۔۔۔

شروع والے دنوں کے لئے دور کے پہاڑ و ڈھول سہانے کی مثال صادق آتی ہے)



شادی کے بعد بیگم موصوفہ کے ساتھ پہلی عید شاپنگ پر پھر منظر کچھ یوں ہوتا کہ 

آپ کو گھر واپسی کی جلدی 

اور بار بار بیگم موصوفہ کا شرماتے ہوئے منہ سے یہی نکلے گا۔۔۔۔

اُف ٹائم اتنا ہو گیا ہے۔۔۔۔

ابھی تومیں نے کچھ خریدا ہی نہیں۔۔۔۔۔

اور آپ باری باری اپنے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ کر انگشت بدنداں ہوں گے۔۔۔۔

بلکہ ہلکے سے دانت بھی کچکچا ہی جائیں گے۔۔۔۔۔


خیر گزشتہ برسوں کی جب آپ کو تنہا شاپنگ کی یاد آئے گی تو اپنے آپ کو کوسیں گے 

(بلکہ تھوڑی بہت لعن طعن بھی لازمی کریں گے)

(حد ہے ویسے ایسی خوش فہمیوں کی پٹاری پہ)


حد ہی ہو گئی خوش فہمیوں کی انتہاء کی۔۔۔۔۔ 

ابھی بات چلی نہیں اور موصوف رخصتی کے بعد کی بھی شاپنگ پہ پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔


خیر خوش فہمیوں کے یادوں کے تانوں بانوں کے ٹوٹے سلسلے کو وہیں سے جوڑتے ہیں۔۔۔۔۔

مشرقیت کے تقاضوں کے مطابق رخصتی سے پہلے ان کے ساتھ عید شاپنگ 

(مشرقیت کا ٹیگ لگانا ضروری ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہوتی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے شجر ممنوعہ ہوتے۔ 

حالانکہ باقی کزنز فیملی ممبرز سے بات چیت کرنے پہ مشرقیت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ 

لیکن مستقبل کے جیون ساتھی کی آپ میں سلام دعا۔۔۔۔

بات چیت۔۔۔۔

شجر ممنوعہ۔۔۔۔

خیر مشرقیت کی بھی اپنی ہی منطقیں ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں)



مشرقیت کے تقاضوں کے عین مطابق رخصتی سے پہلے ان کے ساتھ عید شاپنگ ایسی بات تو ناممکنات میں سے ہے 

چلیں اگر بالفرض ایسا ممکن ہو بھی جاتا یے۔۔۔۔

تو



موصوفہ۔۔۔۔۔۔

اُف۔۔۔۔۔

مشرقیت کی وجہ سے نام لیتے ہوئے بار بار زبان گنگ ہو جاتی ہے۔

اور پیشانی پہ نھنی بوندیں چمکنے لگتی ہیں 

اور زبان لڑکھڑا کر ساتھ چھوڑ جاتی ہے)

موصوفہ کے ساتھ ان کی حفاظت کے لئے حفظِ ماتقدم کے طور پہ پوری فوج از ظفر موج بھیج دی جاتی۔ 

چالاک ہوشیار انتہائی کھرانٹ قسم کے ایلچی ساتھ بھیجے جاتے۔

(اور مشرقی مہمان نوازی نبھاتے ہوئے انہیں بھی مجبورا شاپنگ کروانا ہو گی بلکہ کسی فاسٹ فوڈ چین سے ان کی اچھی خاصی تواضع بھی کروانا پڑے گی 

اور ایسے موقعوں پہ اپنی نئی رشتہ داری کا خیال نبھاتے ہوئے کسی بھی طرح کی کسر نہیں چھوڑیں گے)


موصوفہ سے بات چیت تو دور کی بات ان کو کن اکھیوں سے دیکھنا بھی نصیب نہیں ہو گا

کیونکہ دائیں بائیں حفاظتی دستے مقرر ہوں گے۔ 

(ان کے سنگ قدم سے قدم ملا کے ہواؤں میں اڑنے کی خوش فہمی سے بہتر ہے کہ آپ زمین پہ ہی رہیں۔)

اور کسی بھی چیز کی خریداری کے دوران آپ شرماتے ہوئے اور اپنی تمام ہمتیں جمع کر کے ان سے ان کی پسند کا پوچھیں گے 

تو فٹ سے موصوفہ کے گرد مامور حفاظتی ایلچی دستے اپنے فرائض منصبی

(کہ خبردار جو کسی نے ایک لمحے کے لئے بھی انہیں تنہا چھوڑا / بات تو دور کہ بات سلام دعا بھی کرنے دی۔ 

اور چالاک ہوشیار کھرانٹ ایلچئیوں کی ڈیوٹی بھی ہوتی ہے کہ وہ پیغام رسانی کا کام سر انجام دیں گی) 

بخوبی سر انجام دیتے ہوئے آپ کو ہر ایک علیحدہ علیحدہ موصوفہ کی پسند بتائیں گے۔

موصوفہ بھی مشرقیت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے خود بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوتیں کہ یہ کب مجھے کب پسند تھیں۔

بیچاری ہونٹوں پہ زبردستی کی مسکان لا کر دانت کچکچا کر بس جی جی ہی کرتی رہ جاتیں۔

کیونکہ موصوفہ کے دل و دماغ میں سختی سے بار بار کی گئی نصیحتوں کا انبار دستک دے رہا ہوتا کہ خبردار جو بات بھی کی۔۔۔۔

موصوفہ کی ان کنفیوژڈ صورتحال کو بھانپتے ہوئے آپ کی پسند پہ بات چھوڑ دی جاتی ہے۔

وہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کی ہر پسند پہ ایک پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔

آخر میں پسند حفاظتی دستہ پر مامور ایلچی ہی کرتے ہیں۔ 

وہ موصوفہ بھی مشرقیت کی لجائیت و تقاضوں کی وجہ سے بس دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کے رہ جائیں گے۔

گھر جا کر ایسے معاملات میں ان کی ٹانگ اڑانے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا سارا حساب کتاب چکتا کریں گی۔

اور عین ممکن بلکہ یقیناً اگلے روز موصوفہ ساری چیزوں ریپلیس کر آئیں گی۔



آپ عید کے روز دلی اطمینان کے ساتھ ساتھ خوش اور پھولے سے سما نہیں  رہے ہوں گے اور نازاں ہوں گے کہ

موصوفہ نے سب کچھ آپ کی پسند (دل کے بہلانے کو خیال اچھا یے غالب ) زیب تن کئے ہوئے ہیں۔۔۔۔


ویسے جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جلد ہی آپ کے خیالی کینوس پہ فورا پانی پھر جاتا ہے

جب بے چینی و شدت انتظار کے کٹھن مراحل سے گزرنے  کے بعد موصوفہ آپ کے سامنے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

آپ آنکھوں کو باربار جھپکتے ہیں کہ 

کہیں آپ کی آنکھیں رنگوں کو پہچاننے سے دھوکا تو نہیں کھا رہیں۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد ججھکتے ہوئے موصوفہ ساری بات جب آپ کے گوش گزار کرتی ہے تو۔۔۔۔

وہ جھوٹ بھی بولے تو لاجواب کر دیتا ہے۔

کی طرح بس آپ بھی اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔

چلو کوئی بات نہیں عیدی تو میری ہی طرف سے ہے۔۔۔۔



 افففف۔۔۔۔۔

یہ منظر ہی کتنا سہانا و دلکش یے۔ 

ہاتھ فورا سے بیشتر بٹوے پہ چلا جاتا ہے کہ اپنا اے ٹی ایم کیا پورا بٹوا ہی ان کی خدمت میں پیش کر دیں۔

آخر کو یہ سب کس کے لئے ہے۔۔۔۔۔۔




یہ اور بات ہے کہ 

ایک دو برس بعد بٹوے سے اے ٹی ایم زیادہ تر ادھر ادھر ہو گا اور استفسار پہ آپ لاعلمی کا اظہار کریں گے۔ 

کہ ان کہ پہنچ سے دور رہے۔ 

اور اس میں کچھ بچا رہے جو آئندہ آپ کے کام آ سکے۔ جو کہ ناممکنات میں سے ہے۔


وہ کہیں سے بھی ڈھونڈ کے لے آئیں گی اور فٹ سے طعنہ (اس وقت تک ایسی باتیں طعنہ ہی محسوس ہوتی ہیں ) آپ کی سماعتوں کے گوش گزار کریں گی۔ 

( آنکھوں میں نمی لا کے۔ جو کہ ایسے موقعوں پہ ان کی غزال و جھیل سی گہری آنکھون میں فورا سے بیشتر آ موجود ہوتی ہے اور ٹھنڈی آہ بھر کے) کہ پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے۔ 


مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔۔۔ 

شادی کے بعد پہلی عید۔۔۔۔۔۔

آپ نے اے ٹی ایم تھمانے کے بعد بٹوہ ہی مجھے تھما کہ کتنے پیار سے کہا تھا (مشرقیت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کچھ الفاظ حذف کئے جارہے ہیں۔ اور ہاں آپ ادھر اپنی شدت عشق و محبت کے مطابق ان کا استعمال کر سکتے ہیں)

کہ یہ لو میرے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ تمھارا ہی تو ہے 

(ایسے موقعوں پہ غزال آنکھوں سے قیمتی موتی لڑھکانے کو موقع محل کے مطابق لازمی سمجھتی ہیں اور کچھ زیادہ جذباتیت کا اور آئندہ ایسی صورتحال پیش نہ آنے کے لئے پھوٹ پھوٹ کے رونے سے بھی دریغ نہںں کرتیں۔)  


کاش۔۔۔۔! 

وہ دن پھر سے لوٹ آئیں اب تو آپ کو میری زرا بھی فکر نہیں ہے مجھے یاد ہے وہ جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھ ہی شکوؤں و شکایات کا ایک دفتر آپ کے سامنے کھول دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور اسی کے ساتھ ہی فٹ سے مطالبہ پیش ہو گا کہ اب آپ میرا خیال بالکل بھی نہیں رکھتے 

اور آپ کو اب میرا زرا بھی احساس نہیں ہے 

لہذا اب آپ کی سزا کے طور پہ میں اب ایک کے بجائے 3 سوٹ لوں گی۔ 

اور میچنگ کے ساتھ ساتھ فلاں فلاں چیزیں بھی جو کب سے پینڈنگ تھیں۔۔۔۔۔

خواتین کی شاپنگ لسٹ سے واپسی کے کئی زیادہ لدی پھندی واپس آتی ہیں 

لہذا فلاں فلاں کا اندازا تو بخوبی ہو گیا ہو گا آپ کو۔۔۔۔۔ 


اور آپ اس وقت کو کوسیں گے جب آپ کے ذہن میں ایسا احمقانہ خرافاتی خیال آیا تھا۔ 

چلیں اب کیا ہوسکتا ہے۔ 

اب اس کی سزا تو بھگتنی پڑے گی۔۔۔



حد ہے ویسے خوش فہمیوں کی پٹاری کی بھی۔۔۔۔۔۔


شاید اسی موقع محل کی مناسبت سے غالب صاحب نے وہ مشہور زمانہ غزل کہی ہو گی۔ 


یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​

اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​


تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​

کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​



بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک جا پہنچی۔ 

اب سب آمین بول کے لمبی تان کے سو جائیں۔۔۔۔۔

ایسا نہ ہو کہ خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلے۔۔۔۔۔۔

اور دل کے غمگین و اداس ہونے کی صورتحال سے بچنے کے لئے لمبی تان کے سو جائیں۔۔۔۔۔۔۔



جیسے ہی آنکھ کھلے۔۔۔۔ 

پھر سے یہ ورد اور شدتِ دل اور دل کی گہرائیوں سے زور زور سے آمین بولیں۔۔۔۔۔

قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے کا کہاں پتا چلتا ہے۔۔۔۔۔

کیا پتا ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں کہ

ہر تہوار کے بعد جن کا دوسرا ڈے سسرال ڈے ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Saturday, July 9, 2022

احساس

احساس

کبھی کبھار

کسی بھی بات سے فرق پڑتا ہی نہیں

کچھ خاص فرق کیا رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا

سب کچھ بیکار سا بے معنی ہو جاتا ہے


کبھی کبھار

کچھ ایسے حالات و واقعات ہو جاتے ہیں

جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے

دماغ کے کسی کونے کھدرے میں بھولے سے بھی سما نہیں سکتے کہ ایسا ہو سکتا ہے


لیکن یہ حالات و واقعات جب پیش آتے ہیں


تو آپ کے اعصاب کو ہی شل کر دیتے ہیں

جس بات کو آپ سننا بھی گوارا نہ کرتے

اس بارے میں بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے


وہ بات سن کر آپ پر خامشی کی گھمبیرتا چھا جائے

اتنی گہری خامشی و سکوت

جیسا کہ موت آنے کے بعد انسان کا  بے جان جسم ہوتا ہے

آپ ہزار بار خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں

ہزار جتن کر کے خیالات کے اس آتش فشاں کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں

لیکن سب کچھ بے سود رہتا ہے


آپ لاکھ خود کو دلاسے دیتے ہیں کہ

نہیں یہ فقط ایک بھیانک خواب ہے

آنکھیں کھولنے پر سب ختم۔۔۔۔۔۔۔

سب کچھ ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر سے وہی پہلے والے لمحات لوٹ آئیں گے۔

پھر سے وہی پہلے والے حالات و واقعات ہو جائیں گے۔


لیکن ایسی خام خیالی و دل کو بہلانے والی انتہائی بچگانہ سی حرکت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔


تلخ حقیقت کا ناگ آپ کو اس طرح سے ڈستا ہے۔ کہ

اس کا زہر آپ کے رگ و پے میں سرایت کرتا جاتا ہے

پھر ازیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ آپ کا دل اچھل کر آپ کے حلق میں آ رہا ہوتا ہے

سانسیں آپ کی سینے میں اٹکنے لگتی ہیں

آپ کی نبض کی رفتار تھمنے لگتی ہیں

سانسیں بھی بوجھل ہونے لگ جاتی ہیں۔

آپ خود کو برف کی سلوں میں پڑا ہوا محسوس کرتے ہیں

زندگی کی تمام رنگینی و رعنائیاں ختم بے معنی و بیکار ہو جاتی ہیں


 اس اذیت کی شدت کی انتہاء پر پہنچنے کے بعد

آپ کا وہ احساس ہی مر جاتا ہے

ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ہے۔۔۔۔

اس کے ساتھ آپ کو وجود کا وہ شدید جذبات والا حصہ بھی مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

Monday, March 7, 2022

زندگی

زندگی


زندگی بس ایسے ہی ہے۔۔۔۔۔۔


کبھی خوشیاں اتنی کہ سنبھالے نہ سنبھلیں۔

کبھی غم، دکھ، تکلیفیں، رنج و الم اتنے کہ چور چور ہو جائیں۔


کبھی اپنائیت اتنی کہ خود پر کسی ولی عہد کا گمان ہونے لگ جائے۔

کبھی بے رُخی و بے اعتنائی اتنی ملے کے اپنا آپ درخت سے گرے زرد چُرمرائے ہوئے پتے سے بھی کم تر لگے۔


کبھی کئیر اتنی ملے کے سبھی آپ کو ہاتھ کا چھالہ بنا کر رکھیں۔

کبھی حالت اس نہج پر پہنچ جائیں کہ آپ کسی بیماری سے موت کے منہ میں جا رہے ہوں اور کوئی پانی کی ایک بوند آپ کے منہ میں ڈالنے والا نہ میسر ہو۔ 


کبھی مصروفیت اتنی کہ سر کُھجھانے کی فرصت نہ ملے۔ چائے، کافی و کھانا تک ٹھنڈا ہو جائے۔

کبھی فراغت اتنی میسر کہ ایک ایک لمحہ بھاری ہو جائے۔ چند لمحے صدیوں کی مانند لگیں۔


کبھی کھانے کو اتنا کچھ میسر کہ سب تھوڑا تھوڑا چکھنے کے باوجود بھی بہت کچھ باقی رہے۔

کبھی سوکھی روٹی کا ٹکڑا تک میسر نہ ہو۔

کبھی بٹوے میں اچھے خاصے پیسے ہونے کے باوجود ایک نوالہ تک خریدنا میسر نہ ہو۔


کبھی رونقیں، محفلیں، رنگینئیاں و رعنائیاں اتنی میسر کہ ہم ان سب سے تھک جائیں۔

کبھی تنہائی اتنی میسر کہ خود پر کسی پرانی آسیب زدہ حویلی و کھنڈر کا گمان ہونے لگے۔


کبھی اس فریب میں ہم خود انوالو ہو جاتے ہیں۔

کبھی حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔

کہ ہم اس سراب کے جالے میں ریشم کے کیڑے کی مانند یہ ریشم اپنے گرد خود بننے لگتے ہیں۔

حالانکہ علم ہوتے ہوئے بھی کہ ایک دن یہ ریشم ہمارے گلے کا پھندا بن کر ہماری سانس کی ڈوری توڑ دے گا۔


‏‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎بس زندگی یہی ہے۔

کبھی کبھار سب کچھ ایک Systemized ہو کر بھی ہم ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

Friday, November 5, 2021

چائے

 ‏‎‎‎‎‎‎چائے


‏جاڑے کی صبیح صُبح کی شفق و سُنہری نرم و گداز روپیلی دھوپ کی سُنہری کرنوں کی مانند ایک ایک سپ گدازیت سی بھر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

قوس و قزع کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے رگ و پے میں شگفتگی سی بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے انگ انگ میں سرور کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی مانند سُر بکھیر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

چائے کا ایک ایک سپ زندگی کی تمام رنگینئینوں و رعنائیوں کی مانند بھرپور و جاندار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

آرٹسٹک لینڈ اسکیپ پر بکھرے رنگوں کے قوس و قزع کی مانند چائے ہمارے رگ و پے میں دھنک کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!


چائے چاہت سے ہی بنتی ہے۔

بنا چاہت کے وہ فقط ایک کھولتا ہوا پتی گھلا مشروب ہی ہو سکتا چاہے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کی چاشنی مزید نکھرتی و ابھرتی یے جب وہ دل سے بنائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا اروما مزید نکھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کی چاشنی مزید بڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے کا رُومانس مزید نکھرتا ہے۔ اگر مٹی کی برتن میں بنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!

مٹی کے سوندھی سوندھی مہک کے بلئینڈ کے ساتھ چائے کا اروما کیا ہی شاندار ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


کُہر و دھند کی دبیز چادر اوڑھے جاڑےکی انتہائی دلکش، دلفریب و دل کے تاروں و سُروں کو بےاختیار چھیڑتی ملگجی سُرمئی سہ پہر۔۔۔۔۔۔۔!


بادِ نسیم و بادِ شمیم کے خُنک مُدھر جھونکوں کےساتھ گلاب وجیسمین کی بھیگی بھیگی بھینی بھینی مہک۔۔۔۔۔۔۔۔!


گاؤں میں آنگن میں بنے مٹی کے چولہے پہ لکڑیوں و اُپلوں سے آگ جلاتی بانکی سجیلی الہڑ مٹیار۔۔۔۔۔۔۔۔!


جو میدے و سیندور میں گُندھے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے لکڑیوں و اپلوں سے آگ جلاتی ہے۔ اور وقتا فوقتا آگ کی آنچ میں ارتعاش پیدا کرنے کو اس میں لکڑیاں و اُپلے شامل کرتی ہے۔


چٹختی لکڑیوں و اُپلوں کی سرخ و نیلگوں آنچ میں جولانی پیدا کرنے کیلئے میدے و سندور میں گندھے مخروطی انگلیوں والے بلور حنائی ہاتھوں کی حنا کا گہرا پرتو لیے پوروں میں پھونکنی تھام کر اس میں اپنی تمتماتی سانسوں کے زیر و بم سے کلیان راگ بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چاروں اور کومل و شُدھ سُروں کو بکھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

کبھی لہر میں آ کر سمپورن کی چاشنی رس گھول دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سمپورن راگ پر سُرخ و نیلگون شُعلے رقص کُنائی کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

تمتاتی سانسوں سے سرخ و نیلگوں شعلوں پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ وہ وجد میں آ کر بے خودی کی کیفیت میں آ کر مزید بڑھکتے ہیں۔ مسحور کُن کیفیت میں ان کی لپیٹیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھونکنی سے کومل و شدھ راگوں کے ساتھ کلیان راگ بکھیرنے کی وجہ سے دھواں بھی اس کی اور لپکتا ہے۔ 

جو سانس بن کر اس میں دھڑکنا چاہتا ہے۔ دھواں اس کی ستواں ناک و صراحی دار گردن میں سمونا چاہتا ہے جس سے اسے کھانسی سی آ جاتی ہے۔

صبیح جھیل سی گہری قرمزی آنکھوں میں ستارے سے جھلملانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


بکھری امبر زُلفوں میں چاندنی کے زرے بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس کے ستواں ناک پر عقیق کی پرتیں چڑھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


شہابی گال نیلگوں و سرخ شعلوں کی تمازت سے تمتما رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


جھیل سی گہری قُرمزی غزال آنکھوں میں شفق بکھر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جبین پر خُنکی کے باوجود بھی موتی بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس بانکی سجیلی الہڑ مٹیار کے میدے و سندور میں گندھے صبیح چہرے کے ساتھ ریشمی امبر زُلفوں کی چھیڑ خانیاں بھی بدستور جاری رہتی ہیں۔

جنہیں وہ اپنی حنائی مخروطی انگلیوں سے کانوں کی لو میں اڑوستی ہے لیکن وہ پھر سے اس کمزور قید سے راہِ فرار حاصل کر کے اس کے صبیح چہرے سے چھیڑ خانی شروع کر دیتی ہیں۔

بار بار سمیٹنے کے باوجود مزید بکھرنے والی شوخ و آوارہ لٹوں سے وہ زچ ہو کر انھیں ایسے ہی آوارہ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


سُبک رو نیلگوں و سُرخ شعلوں کی دھیمی آنچ پر کڑھتی چائے کے ساتھ اب اس بانکی ناری کے ہونٹوں پر اطمینان بھری جاندار مسکراہٹ سی آ جاتی ہے۔

اس کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کا چاہِ زنخدان مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


مٹی کی دیگچی میں روپیلی روپ لیے بالائی کی پرت والے خالص دودھ کے کینوس پر پتی کے رنگوں کے سٹرونگ اسٹروکس بکھرنے لگتے ہیں۔ جو دودھ کو اپنے ہی رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ صبیح صبح پر سنہری مخملی رنگ چڑھنے لگتا ہے۔


بانکی سجیلی الہٹر مٹیار رنگوں کے جاندار و شاندار بلئینڈ میں خالص دیسی گھی کی مُدھر مہک لیے، بادام و گری و میوہ جات کی کاشیں خود میں سموئے خالص دیسی گڑ کی ڈلی اس میں ڈال دیتی ہے۔ گُڑ کی چاشنی سے چائے کی حلاوت و اُروما کو مزید نکھارتی ہے۔


دھیمی آنچ پر چائے کڑھتی رہتی ہے۔

ساتھ دھواں کی مُدھرتا بھی اس میں گھلتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


اُبال آنے پر بانکی ناری اپنی سانسوں کی مالا سے سحر طاری کر کے اس کو کم کرتی ہے۔

اس سحر سے مدہوش و بےخود ہو کر چائے مزید ابلتی ہے کہ برتن سے باہر چھلکنے کو بے تاب ہوتی ہے۔ مٹیار اپنے ہاتھوں میں قندوری تھام کر ہلاتی ہے۔ کبھی کپڑا سرک کر دہکتا برتن اس کی حنائی پوروں کی سُرخی بڑھا جاتا یے۔ کبھی کچھ بوندیں اس کے بلور حنائی ہاتھوں سے وصل کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چائے دھیمی آنچ پر کڑھتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

سنہری رنگ مزید گہرے سے گہرا تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس پر سنہری بالائی کی پرت بھی مزید دبیز ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


الہڑ مٹیار اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے دیگچی تھام کر سانسوں کی مالا سے سنہری بالائی کی تہہ کو پیچھے کرتی ہے۔ بالائی کی دبیز تہہ اس بانکی ناری کے شہابی گالوں میں پڑنے والے بھنور میں ڈوب کر پیچھے سرکنے لگتی ہے۔ سنہری بالائی کی دبیز تہہ سرکنے پر چائے کو پیالے میں ڈال دیتی ہے۔ 


گلابی پیراہن زیبِ تن کیے و بانکی سجیلی الہٹر و نٹ کھٹ مٹیار سلیقے سے ڈوپٹہ سر پر جما کر گلابی آنچل کا ایک سرا ہونٹوں میں دبا کر گہرے ڈمپل کے ساتھ عُنابی ہونٹوں پر گہری مُسکان لیے اپنے بلور حنائی ہاتھوں سے چائے کا پیالہ تھماتی ہے۔


اس کے ان رمز و ناز، غمزہ و عشوہ نازیوں کے قاتلانہ وار کے ساتھ چائے کے ایک ایک سپ سے زندگی اپنی تمام تر جولانیوں، رنگینیوں و رعنائیوں سے مسکرانے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔!

Monday, November 1, 2021

گردابِ زندگی

گردابِ زندگی


زندگی۔۔۔۔۔۔!


‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎زندگی کبھی بھی ہمارے مطابق، ہماری منشاء، ہماری تمنا و آرزو، ہماری ترجیحات کے مطابق نہیں گزرتی۔۔۔۔۔۔!


ایک وقت ایسا آتا ہے کہ 

ناران کاغان کی رُومانوی پُرفضا کی مانند ہم پر مہربان ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر پلک جھپکتے ایسے انگڑائی لیتی ہے کہ 

ہمیں صحارا کے لق و دق تپتے صحرا میں بے سہارا پھینک دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جب آپ زندگی کے اس فیز پر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


تب سبھی چیزیں آپ کے مخالف رخ پر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ آپ کے مخالف دھارے پر بہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ چاہے جتنا مرضی ان لہروں کو چیر کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

یہ دھارا آپ کی کوشش و تگ و دو کے ساتھ ساتھ مزید گہری سے گہری تر ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


آہستہ آہستہ آپ کی ہمت و حوصلہ جواب دینے لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

آپ کے اعصاب شل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر اس تیز دھارا کے بہاؤ کے گرداب میں آپ کے مضبوطی سے جمے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی کبھار آپ منہ کے بل جا گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کبھی ایسے گرتے ہیں کہ اٹھنے کی سکت ہی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!

مفلوج زدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ اس بھنور میں جتنا مرضی ہاتھ پاؤں ماریں۔

جتنی مرضی کوششیں و جتن کر لیں۔

سب بے معنی و بیکار۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہر طرف فقط ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


آپ ہی ہر حوالے سے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔

آپ پھر چاہے جتنا مرضی دُکھ، تکلیف، پریشانی میں ہوں۔

ان سبھی باتوں کو نظر انداز کر کے آپ کو مجرم و ہر بات کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


تب آپ بیشک وینٹی لیٹر پر ہوں یا جتنی مرضی کرئیٹیکل کنڈیشن پر پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کسی کو آپ کی اس کنڈیشن سے غرض نہیں ہوتی۔

کسی کو بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

آپ ہی فقط زمہ دار و قصوروار۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر نہ ہمیں کوئی راستہ نظر نہ آتا ہے نہ ہی منزل۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی ایک نوالہ حلق سے اتارنے کو میسر۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی حلق تر کرنے کو پانی کی اک بوند میسر۔۔۔۔۔۔!


ہم جُھلس جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہماری جلد تانبے کی مانند تپنے لگے جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


حلق میں خشک کانٹے چبھنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


پاؤں میں چھالے بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


زندگی کی تمام رنگینئیاں و رعنائیاں و تابانیاں ہمارے لئے بالکل بے معنی، بیکار سی ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


زندگی بوجھل سی لگتی یے۔۔۔۔۔۔۔۔!

زندگی اک عذاب لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جینے کی تمنا کی کوئی بھی رمق باقی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


سانس تک لینا دوبھر ہو جاتا یے۔۔۔۔۔۔۔۔!

حلق میں ہر سانس کے ساتھ کیکٹس چبھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ایک ایسا عذاب ہمارے گلے کا پھندا بن جاتا یے کہ 

ہم نہ تو جی سکتے ہیں نہ ہی مر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


نہ ہی اپنی زندگی کو اس عذاب سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔! 

Saturday, October 16, 2021

سٹرائیک کی کتھا

 سٹرائیک کی کتھا


 ویسے کمال و حیرت ہے ان صنفِ نازک و نازک اندام ماہ جبینوں پہ۔۔۔۔۔۔۔۔!


 جو ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چل رہی تھیں بلکہ ہم سے بھی دو چار قدم آگے چل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ایسے تیز و تند موسم میں برقعے و سکارف میں لپٹی ماہ جبینئیں و حسینائیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


فضا بیک وقت کوئلوں کی کُوک سے۔۔۔۔۔۔۔۔!

کلئیوں کے چٹخنے و پھولوں کے کھلنے کی آوازوں سے گونج گونج جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔!


کہیں فضاؤں میں قوس قزح کے رنگ بکھیرتی ہنسی۔۔۔۔۔۔۔۔!

کہیں قہقہے فضا میں جلترنگ بکھیر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔!


کچھ نازک اندام و نفاست پسند ماہ جبینیں اپنے نفیس، عمدہ و خوبصورت ہینڈ بیگز سے مہکتے ٹشو پیپرز کو اپنی مخروطی انگلیوں میں تھام کر ان مہکتے ٹشوز میں شبنمی بوندوں کو قید کرنے سے پہلے اپنی جھیل سی گہری آنکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔!

کسی کی نیلگوں، کسی کی کتئھی، کسی کی قرمزی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ان سے انتہائی دلفریب انداز میں ادھر ادھر چوکنہ ہرنیوں جیسی نظروں سے دیکھتی ہیں کہ کہیں کوئی ان ماہ رُخوں کی جلوہ افروزی سے لظف و اندوز و انسباط تو حاصل نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔!


پھر اطمینان بخش انداز میں اپنی خوبصورت نازک اندام مخروطی انگلیوں سے اپنے ماہ رخ سے سکارف کا سرا سرکا کر انتہائی نفاست سے اپنے گُل رخ پہ بکھری شبنمی بوندوں، دھوپ کی تمازت سے تمتماتے شہابی گالوں، ستواں ناک، چاہ خنداں ٹھوڑی، انتہائی قرینے سے بنائے خمیدہ ابرؤوں، شفاف جبین کو اپنی مخروطی انگلیوں میں تھامے ٹشوز میں جذب کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


ٹشوز اپنی عزت افزائی و خوش نصیبی پہ جھوم جھوم جاتے ہیں۔ لیکن وہ ماہ جبینیں انہیں زمین پہ پھینک دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور وہ ان کے ہاتھوں سے الوداعی انداز میِں رخصت ہوتے ان کے قدموں میں گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور کئی ماہ جبینوں کے قدموں تلے رندھتے ہوئے خاک و مٹی میں مل جاتے ہیں لیکن مسکرا رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


کئی ماہ جبینیں اپنے گُل رخوں پہ آئی شبنمی بوندوں، اپنی شفاف جبین، شہابی گالوں، ستواں ناک پہ پھوٹتی، چاہ خنداں پہ آئی شبنمی بوندوں کو اپنی نرم و نازک و شفاف مخروطی انگلیوں سے پونجھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


 تھوڑی دیر پہلے اپنی خوش قسمتی پہ رقص کرنے والی شبنمی بوندیں انتہائی بے بسی و لاچاری کی تصویر بنی ان ماہ جبینوں کی مخروطی انگلیوں سے الوداعی انداز میں رخصت ہوتی جیسے ہی زمین پر گرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

وہ ان ماہ جبینوں و گل رخوں کے قدموں تلے رندھ کر خاک و دھول کا حصہ بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


Saturday, August 21, 2021

چاٹی کی لسّی

چاٹی کی لسّی


 لسّی۔۔۔۔۔۔۔۔!


وہ بھی چاٹی والی لسّی۔۔۔۔۔۔۔۔!


پنجاب کے زرخیز کلچر کے قوس و قزح کے بکھرے رنگوں کا سنہری نرم روپیلی گداز دھوپ کی کرنوں کی مانند خوبصورت صبیح صبح کے اجلے رنگ کا پرتو لیے۔۔۔۔۔۔۔۔!


جب بانکی سجئیلی الہڑ مٹیار۔۔۔۔۔۔۔۔!


جو ککڑ کی بانگ سے بھی پہلے الوداعی تاروں کی نرم ٹمٹماتی چھاؤں میں نیم خوابیدگی کی سی کیفیت میں اپنی جھیل سی گہری نین کٹورا شفاف قرمزی آنکھوں میں بکھری شفق، بکھرے کاجل میں جلتے دیے کی لو لیے شہتوت کی ٹہنیوں کی مانند لچکیلی بانہوں کو اٹھا کر قیامت خیز انگڑائی لے کر اٹھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

 

صبیح چہرے پر میدے و سندور سے گندھے ہوئے حنائی ہاتھوں سے پانی کے چھینٹے پڑنے سے تازگی مزید نکھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! 

شفاف موتی اس مہر جبین کی طاق جبین، ستواں ناک، ناک میں پڑی نتھلی، میدے و سندور میں گندھے شفق کی سرخی لیے گالوں، ان میں پڑنے والے ڈمپل، چاہِ زنخ، بن گوش میں بُندوں، سیاہ امبر ریشمی زلفوں میں بکھرے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


یونانی دیوئیوں کا سا ملکوتی حُسن لیے وہ یونانی اپسرا مہر جبین کل دن بھر کے اُپلوں و چٹختی لکڑیوں کے سرخ و نیلگوں شعلوں کی دھیمی آنچ پر کڑھتے ہوئے روپیلی سنہری بالائی کی مُدھر دبیز مخملی پرتوں چڑھی دودھ کی چاٹی جس کو پھر رات بھر کے لئے جاگ لگائے رکھا تھا۔


اس دودھ کی چاٹی کو گردی پر رکھ کر پیڑھی پر براجمان ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


مدھانی کے جُٹ کو چاٹی میں ڈال کر چپن کو اس پر جماتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


چوکھٹے کے ساتھ جمے آئینہ سے اپنے صبیح حُسن کا تنقیدی جائزہ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


اور کسی کی یاد سے آنکھوں میں جلتے دئیوں کی لو مزید بڑھک اٹھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


تمازت سے شہابی گالوں میں قوس و قزح کے بکھرتے رنگوں کے ساتھ ڈمپل و چاہ زنخ کے گڑھوں میں مزید گہرائی اتر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


لہراتی و بل کھاتی ریشمی زلفوں کو عشوہ ناز و ادا سے جھٹک دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


چاٹی کی گردن میں ڈالنے والے موتیوں، سیپیوؤں، گھنگھرؤں سے مزین ویترے (رسی) کے کس بل سیدھے کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


کبھی دھیان و توجہ کسی اور طرف ہونے کی بدولت گرہیں سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

جس سے جبینِ ناز پر سلوٹیں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


یونانی دیوئیوں کا سا ملکوتی حُسن لیے پری تمثال یونانی اپسرا سا شاہکار بنی وہ ماہ پارہ میدے و سیندور میں گندھے اپنے بلور ہاتھوں سے جب ویترے کو مدھانی کے گرد بل دے کر ویترے کے ساتھ بندھے ہوئے روگ (لکڑی کی کلیوں) کو تھام کر مدھانی کو بلوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏مدھانی بلونے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہلارے لے رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


صبیح صبح کی خامشی میں اس کی مضبوط شہتوت کی مانند لچکیلی بانہوں میں جب ہرے کاسنی اودھے سرخ و بنفشی زمرد سرسوں کے رنگوں کی چوڑیاں جب کھن کھن کھنکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


چاروں اور سُر لے تال بکھیرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


فضا میں جلترنگ بکھیر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


جیسے دور مندروں میں بجتی گھنٹیاں۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏جاڑے کی کُہر و دھند میں لپٹی صُبح میں بھی اس صبیح حُسن والی الہڑ مُٹیار کی طاقِ جبین، سِتواں ناک، چاہ زنخ، شہابی گالوں پر شفاف موتی بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


مدھانی کی گھر گھر گھر گھر کی مُدھرتا سُر لے تال۔۔۔۔۔۔۔۔!


کانچ کی چوڑیوں کی کھنک۔۔۔۔۔۔۔۔!


سِتواں ناک میں پڑی نتھلی کے ہلکارے۔۔۔۔۔۔۔۔!


بِن گوش میں پڑے بُندوں کے رقص کے ساتھ ساتھ سیاہ ریشمی امبر زلفوں کے ساتھ چھیڑ خانی۔۔۔۔۔۔۔۔!


صبیح چہرے کے ساتھ لہراتی بل کھاتی ریشمی امبر زُلفوں کی چھیڑ خانئیاں۔۔۔۔۔۔۔۔!

نازنین کے لسّی بلونے کے ساتھ سیاہ ناگن کی طرح ریشمی زُلفوں کو سمیٹنے کی اپنی سی ناکام کوشش سے وہ مزید اُلجھ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

جن کو بالاخر ایسے ہی چھیڑخانی و رقص کُنائی کی کیفیت میں چھوڑ دیتی یے۔۔۔۔۔۔۔۔!  


یونانی دیوی و یونانی اپسرا کے لسّی بلونے کے ساتھ ہلکارے۔۔۔۔۔۔۔۔!


بالاخر کو اس فینٹئیسی کا خُمار ٹوٹتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور پری تمثال یونانی دیوئی میدے و سندور میں گندھے بلور ہاتھوں سے گول مکھن کے پیٹرے نکال کے سائیڈ پر رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور لسّی کو بڑے گڈوے میں انڈیل دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس لسّی کے ایک ایک گھونٹ میں فرحت بخش تازگی زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں و جوبن کے ساتھ حلق سے اترتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, May 11, 2021

پیراہن تراش

 پیراہن تراش


اگر ہم پیراہن و قبا تراش ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


تو کرسٹل سانچے میں ڈھلے ہوئے اس بلور آبگینے کے ملبوس کی وضع قطع کو اس عمدگی سے ترتیب دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔! 


کہ ہماری فن کاریگری کو دیکھتے ہوئے پریاں اپنے ملبوس لیے ہماری اور آتیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


صبیح صُبح، شفق، قوس و قزح و زمرد سے رنگ لے کر ان کو اس گُل بدن کے پیراہن پہ دھنک کے رنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏ہم اس کے فراکوں میں گوٹہ کناری و سلمن ستاروں کی جھلمن سے ایسی ایسی نقاشی و آبگینے بکھیرتے کہ 

وہ ہمارا ملبوس زیب تن کیے پہروں سبک رو خراماں خراماں اٹہلاتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


ہم اس پری پیکر ناز نین و پری تمثال زہرہ جبین کے پیراہن کی تراش خراش ایسے کرتے کہ

پھولوں کی قبائیں کتر کے ان سے مینا کاری کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


‏کلیوں سے جلترنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!


گلاب، جیسمین، موتیے و گیندے کی نوخیز کلئیوں کی گلکاریوں سے وہ گل بدن پہروں مہکتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


مخمور ہوکر سُبک رو مستانی چال چلتا۔۔۔۔۔۔۔۔!


اس سرو قامت نازنین کیلئے ایسا زمرد پیراہن تیار کرتے کہ 

جس سےاس کی سروقامت اور نمایاں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔!


ملبوس زیب تن کرنے سے اس کی اٹھلاہٹ وہ کام کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔! 

جیسے بادِ صبا و بادِ نسیم کے مُدھر جھونکوں سے سرو جھومتے۔۔۔۔۔۔۔۔!

Monday, May 10, 2021

جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی

جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی


جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی
قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی


یَا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين
تیرا کروڑوں بصد شکر و احسان۔۔۔۔۔۔!

سلام پاکستان🇵🇰 

شکریہ پاکستان🇵🇰

آزادی مبارک🇵🇰

بابرکت و رحمتوں بھرےماہِ صیام کا 27 رمضان المبارک.....!

بے پناہ قربانیوں, ان تھک محنتوں و کاوشوں, دُعاؤں کی قبولیت کا مبارک دن....!

اللّٰہ رَبُّ العِزت کا اس خطہ ارض کے بسنے والے مسلمانوں کے لئے ماہ صیام کا تحفہ۔۔۔۔۔! 

ہمارا پیارا  پاکستان 🇵🇰

اسلام کا قلعہ۔۔۔۔۔۔! 

13 اگست 1947ء  وقت‏ 11:50 Pm
ریڈیو سے آواز بلند ہوتی ہے۔
یہ آل انڈیا لاہور یے آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجئیے۔


14 اگست 1947ء  وقت 12:05 Am
دوبارہ ریڈیو سے آواز بلند ہوتی ہے۔
یہ ریڈیو پاکستان🇵🇰 ہے۔ 
آپ کو "پاکستان🇵🇰" مبارک ہو۔


پاکستان معرض وجود میں آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔!


ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اور مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں نے شرمندہءِ تعبیر کر دیا۔۔۔۔۔۔!


لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اس وطنِ عزیز 🇵🇰 کی طرف سر پٹ بھاگتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


ماؤں بہنوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔

بھائی کو بھائی کے سامنے, بیٹوں کے سامنے ماں باپ کو, بوڑھے والدین کے سامنے ان کے جوان و کمسن لخت جگروں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔

ماؤں سے نھنے معصوم چھین کر ہوا میں اچھال کر ان کو نیزے کی انیوں میں پرویا گیا۔

کنوؤں میں زہر ڈال دیا گیا۔ جس سے اس پاک دھرتی کی طرف آنے والوں نے اپنے پیاروں کو اپنے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھا۔

ٹرین جب لاہور آکر رکتی تو دروازہ کھلتے ہی لاشوں کا ڈھیر اسٹیشن کے فرش پر گرتا۔ بوگیاں کی بوگیاں لاشوں سے بھری پڑی ہوتی۔

بلوائیوں کے حملوں کی وجہ سے پیارے اپنوں سے بچھڑ گئے۔

کچھ ادھر رہ گئے۔

کچھ راستے میں ہی گزر گئے۔ 

اور جو زندہ لاشیں پاکستان 🇵🇰 کے بارڈر پر پہنچتیں۔

وہ بے پناہ خوشی سے دوڑتے۔ 

اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔! کے نعرے لگاتے اس دھرتی 🇵🇰 کو چوم کر سجدہ ریز ہو جاتیں۔

کہ یا اللّٰہ تیرا شکر۔۔۔۔۔۔! ہم آج اپنے آزاد ملک 🇵🇰 میں آ گئے ہیں۔

یہ پاک دھرتی 🇵🇰 ہم نے خون کے دریا عبور کر کے ہم نے حاصل کی ہے۔۔۔۔۔!


یَا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين۔۔۔۔۔۔!

اس پاک دھرتی 🇵🇰 کو اپنی خاص الخاص حفظ و امان میں رکھیں۔۔۔۔۔۔!

اس پاک دھرتی 🇵🇰 کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا۔۔۔۔۔۔!

اس 🇵🇰 کے باسی اتحاد و پیار و محبت سے رہیں۔۔۔۔۔۔!

اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرما۔۔۔۔۔۔!

ساری دشمن قوتوں کے تمام حربوں کو نیست و نابود کرنے کی ہمت و جُرات عطا فرما۔۔۔۔۔!

آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔!

یا رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ۔۔۔۔۔!


اے میرے وطن 🇵🇰 تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دم ہو
اے میرے وطن 🇵🇰  اے میرے وطن 🇵🇰
اے پاک چمن 🇵🇰 اے پاک چمن 🇵🇰


خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
(احمد ندیم قاسمی)


ہم تو مر جائیں گے اے ارضِ وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
(محسن نقوی)


LONG LIVE PAKISTAN 🇵🇰

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ زندہ باد 🇵🇰

قائد اعظم محمد علی جناحؒ زندہ باد 🇵🇰

پاکستان بنانے والے تمام مرد و خواتین لیڈران زندہ باد 🇵🇰

پاکستان بنانے کی کاوش میں شامل ہونے والا ہر فرد زندہ باد 🇵🇰

پاکستان پائندہ باد 🇵🇰

پاک آرمڈ فورسز زندہ باد 🇵🇰

Voluntary / Retiring Pension of Govt Servants

Voluntary / Retiring Pension  of Govt Servants