الوداعی لمحات
سب سے مشکل لمحے الوداعی ہوتے ہیں
جیسے بپھری موجوں والے سمندر میں خامشی و سکوت
ہنگامہ خیز دن کے بعد رات کی تاریکی و سناٹا
ریل گاڑی کی ہلچل کے بعد ویران پلیٹ فارم
سانسیں بوجھل، سانس تک لینا دو بھر
زندگی تھم سی جاتی ہے
سارے رنگ پھیکے و ماند پڑجاتے
جی چاہتا ہے کہیں ویرانے میں بسیرا کرلیں
ساری روشنیاں ماند و زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں
زیادہ تر سنی جانے والی پسندیدہ غزلیں و گیت بھی بے معنی ہو جاتے ہیں
کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے
ہر شے سے جی اچاٹ ہو جاتا ہے
ہر چیز سے بیزاری، کوفت، جھنجھلاہٹ انتہاؤں کو چھو رہی ہوتی ہے
کسی کے زرا سا کچھ کہنے سے اس سے خوامخواہ الجھنا
ہجوم و محفل میں بھی دل و دماغ کہیں اور ہی الجھا رہتا ہے
جتنا چاہے جی کو بہلایا جائے زہن کہیں اور بٹایا جائے اسی شدت سے اس کے سنگ گزرے لمحات ایک ایک کرکے پردہ سکرین پہ چل کر اور بے چینی وبیقراری کو بڑھاتے ہیں
یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔جو کسی صورت رکنے و تھمنے کا نام نہیں لیتا
اس الوداعی شخص کے سنگ بیتے پل، گزری یادوں کا قیمتی اثاثہ اس وقت ڈھارس بندھاتا ہے۔. شدت کی طغیانی میں کمی لاتا ہے
اس سنگ گزرے پلوں کی اہمیت کا احساس اسے الوداع کہنے پہ پتا چلتا ہے کہ اسکے سنگ بیتے پل زندگی کے بہترین گزرے و بھرپور جئے پل محسوس ہوتے ہیں نہایت بیش قیمت و انمول۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment