نفرت کی شدت و انتہاء سے سفرِ محبت
نفرت۔۔۔۔۔۔!
خالصتاً ایک سچا جذبہ ہے۔۔۔۔۔۔!
بے پناہ نفرت ہوتی بھی ان سے ہے۔۔۔۔۔۔۔!
جن سے ہم بے پناہ پیار و محبت کرتے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
جو ہمیں جی جان سے پیارا لگتا تھا۔۔۔۔۔۔!
جو ہر لمحے ہمارے دل و دماغ میں بستا تھا۔۔۔۔۔۔!
جو ہماری دھڑکنوں و سانسوں میں بستا تھا۔۔۔۔۔۔!
جس کے بنا ہم ایک پل گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔۔۔!
انسان جس سے نفرت کرتا ہے،
سچے من سے کرتا ہے۔
بغیر کسی لگی لپٹی کے۔
بغیر کسی کھوٹ کے۔۔۔۔۔۔!
انسان اس شخص کو ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
ناقابل برداشت ہو جاتا ہے وہ شخص۔
اس کی شکل دیکھنا بھی ہم گوارا نہیں کرتے۔
اسے دیکھ کے یا اس کی باتیں سن کے یا اس کا خیال آتے ہی جھنجھلاہٹ طاری ہوجاتی ہے۔
بیزاری سی بھر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!
ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔
چنگاریاں پھوٹنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔!
دل و دماغ میں اس شخص کے لئے نفرت کا الاؤ بھڑک رہا ہوتا ہے۔
یہ وہ جذبہ ہے جس میں کھوٹ و ملاؤٹ نام کی کوئی گنجائش بچتی ہی نہیں۔
نہ ہی کسی قسم کے رحم و ہمدردی کے کسی جذبے کی گنجائش اس شخص کے لئے کسی طور بچتی۔۔۔۔۔۔!
یہ بھی سچ ہے۔۔۔۔۔۔!
کہ جس شخص سے ہم بے پناہ نفرت کرتے ہوں۔
اگر اس سے ہمارا آمنا سامنا ہوتا ہو یا وہ آس پاس موجود ہو اور وہ بغیر کچھ کہے چپ چاپ ہماری کڑوی کسیلی و تلخ باتیں سن لیتا ہو۔
اس کی خاموشی ہمیں اور جھنجھلا دیتی ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ شخص بولے، جواب دے تاکہ ہم اس پہ مزید غصہ کر سکیں۔
اس کی ہر بات خاموشی سے چپ چاپ سن لینے عادت ہمیں بہت برافروختہ کرتی ہے۔۔۔۔۔۔!
ایسے میں جب کبھی ہماری ہر کڑوی، کسیلی، تلخ بات سن کر خامشی سادھنے والے شخص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو وہ اپنی خامشی کو توڑ کے بولتا ہے بہت بولتا ہے۔
اردگرد سے بےخبر بس بولے ہی چلا جاتا یے۔
پھر پرانے سارے حساب کتاب چکتا کرتا ہے۔
اور جب آنسوؤں میں اس کی آواز رندھ جاتی ہے۔
آنکھوں و گالوں سے بہتے آنسوؤں کی تاثیر اس وقت بہت خطرناک و پراثر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
اگر اس لمحے میں اس شخص پر زرا سی نظر ٹھہر جائے۔۔۔۔۔۔!
تو ایسے میں ان آنسوؤں کی تاثیر براہ راست ہمارے دل پر سحر طاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔!
یہ لمحات ہمارے دل و دماغ میں جیسے نقش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
اور یہی تاثیر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!
تنہائی میں یہ تاثیر اور بھی شدت اختیار کر لیتی ہے۔۔۔۔۔۔!
تب ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے ناحق اتنا غلط کیا۔۔۔۔۔۔!
یہی احساس آہستہ آہستہ زور پکڑتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
اور ہمیں ہماری انا کے سبب اکھڑے لہجے میں ہی سہی لیکن ہمیں سوری کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔!
اس کے بعد ہمیں یہ سحر مسحور کرتا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
جو آہستگی سے خراماں خراماں سبک روی سے ہوتے ہوئے پیار سے محبت کی جانب محوِ سفر ہونے پر مجبور کر دیتا۔۔۔۔۔۔!