Search This Blog

Showing posts with label MyUrduExcerpt. Show all posts
Showing posts with label MyUrduExcerpt. Show all posts

Thursday, May 6, 2021

ماضی کے جھروکوں سے

 ماضی کے جھروکوں سے


پہلے جب نیلگوں امبر کے سائے تلے آوارہ شوخ بدلیوں کی ٹولیاں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی بوندیں بکھیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

تو ایسے رنگین و دلفریب موسم میں تمام نصف بہتروں کے دل میں مجازی خدا (شوہر نامدار) کے لئے وصل کی تمنا کی انگڑائیاں موجزن ہو جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

اور کئی تو دل میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور کچھ زیادہ اوور مطلب بہت زیادہ ٹچی ہو کر نین کٹورا چھلکا کر سوزوگداز بھری کوئل آواز میں ہوا کے دوش پہ سُر بکھیرنے لگ جاتی تھیں (صنفِ کرخت قسمت کے دھنی کے ان کی سماعتیں ایسے وقت سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ہر سنگر اسی گمان و خوش فہمی میں مبتلا رہتا یے کہ اس کے کلے میں تمام سُروں کو گھول کر گھٹی دی گئی تھی۔ جب تک اسے اس کی سُریلی آواز ریکارڈ کر کے اس کی سماعتوں کے گوش گزار نہ کر دی جائیں اور پھر اس کے ساکت ہونے یا فورا سے ڈیلیٹ کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا یے) 


آئے موسم رنگیلے سہانے

جیا نہیں مانے

تو چھٹی لے کے آ جا بالما ہو

جب بہتی ندیا شور کرے

میرا دل ملنے کو زور کرے


اور ایسے موسم میں جدید آلہ گفت و شنید (موبائل) و سوشل میڈیا کی بدولت نصف بہتر فٹ سے اپنے مجازی خدا کے کان کھانے کا نادر موقع کسی طور نہیں گنواتیں۔۔۔۔۔۔!

اور انھیں کیا معلوم ان کے شوہرِ نامدار اپنی کولیگز کے ساتھ خوش گپئیوں کے ساتھ ساتھ ان پہ شعروں کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں (اس بات کو زہن سے محو کیے کہ وہ ایک عدد نصف بہتر کے مجازی خدا بھی ہیں۔خیر ایسے موقعوں پہ ایسی بے محل باتیں یاد رکھنے کی فرصت کسے) 


کہ اس موسم میں کھڑوس سے کھڑوس صنفِ کرخت بھی گوگل میں آوارہ گردی کر کے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایسے ایسے اشعار گوش گزار فرماتے ہیں (بشرطیکہ اپنی نصف بہتر سے کوسوں دور)  کہ انگشت بدنداں۔ 


ایسے موقع پہ ان کی نصف بہتر ولن کی مانند انٹری فرما کر گل و گلزار و رنگینی کو لق و دق دشت میں تبدیل کرنے میں چنداں نہیں چونکتیں۔ 


صنف کرخت اس موقع پہ سب سے پہلے صلواتیں دیتیں ہیں آلہ گفت و شنید (موبائل) و ٹیکنالوجی کو۔۔۔۔۔


ان کا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم پتھروں کے دور میں سانسیں لے رہے ہوتے اور اس وقت راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا۔ 


اس وقت کومل و نٹ کھٹ الہڑ دوشیزہ کے ہمراہ موسمی پکوانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ 


خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ سو کام کے بہانے و بزی ہونے کا بہانہ بنائیں گے۔ 

میٹنگ و کام کے برڈن کا دکھڑا سنانے بیٹھ جائیں گے۔ 

لیکن کئی نصف بہتر پہ اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی ہانکے مطلب سنائے جا رہی ہوتی ہیں۔ 

صنفِ کرخت سامنے بیٹھی ماہ پارہ و ماہ جبین صنفِ نازک کے لئے مُسکان بکھیرے دانت کچکچا ریے ہوتے ہیں۔ 

ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آلہ گفت و شنید کو دیوار میں دے ماریں یا ادھر سے ہی اپنی نصف بہتر کی صراحی دار گردن کو گھونٹ ڈالیں۔ 


خیر۔۔۔۔۔۔! 

سب سے بہتر ہتھیار کا استعمال فرماتے ہوئے سائیڈ پہ ہو کر اس کے فراق میں تڑپنے و غمِ روزگار کا شکوہ و جلدی آنے کا وعدہ اور سامنے بیٹھی دوشیزہ کے لئے گوگل سے چھان پھٹک کے نکالے اشعار چار و ناچار اپنی نصف بہتر کی سماعتوں کی نذر فرما کر گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے۔ 


نصف بہتر بھی اس موسم میں کرُکرے پکوڑے کباب فرائز کی ٹرے تل کر سکون سے بیٹھ کر سبھی کچھ اکیلے ہی نوش فرمانے لگ جاتی ہیں ۔ا

ور بعد میں اپنے طول و عرض کی وسعت کا سرے سے انکار فرما دیتی ہیں۔

کہ میں پہلے کی طرح سمارٹ و دبلی پتلی سی ہوں۔ 

بس آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔

میرے جیسی پری تمثال و سمارٹ نصف بہتر کے بجائے اب آپ کی نظر میں کوئی اور چڑیل سما گئی ہے۔ 

پھر ایسے موقعوں پہ جو کچھ سین چلتا ہے۔ 

کہانی گھر گھر کی۔۔۔۔۔۔!

وہ سبھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

کہ کچھ بال سفید اور کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔!


اب لاک ڈاؤن کا قصہ کیا سنانا سبھی ایک دوسرے سے مردمِ بیزار کیا اکتائے کیا بھاؤ کھائے بیٹھے ہیں اور صنفِ کرخت بیچارے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر ٹھنڈی آئیں بھر رہے ہیں۔

 کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے فرمائشی پروگرام کرنے سے حاتم طائی کی پشتوں پہ سو بار احسان جتا کر انھیں ملنے والی دال روٹی سے بھی جائیں گے۔

کیونکہ باہر سے کچھ آرڈر کرنے سے بھی رہے۔ 

کہیں مرغ مسلم یا کڑھائی، تکے و کباب کے چکروں میں خود ہی کہیں مرغا نہ بنے ہوں۔۔۔۔۔۔!


کچھ صنفِ کرخت کو تمام ماہ جبینوں، نازنینوں، ماہ رخوں و گل رخ و چندے آفتاب و چندے ماہتاب حسیناؤں کی یاد میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور ہر طرف اِدھر اُدھر یہاں وہاں نظر آتی اپنی نصف بہتر کو دیکھ کر مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔


یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 

Wednesday, May 5, 2021

سرابِ زندگی

سرابِ زندگی 

 

 ‏ہم چاہے جتنا مرضی کسی کی زات کا بہت ہی اہم حصہ ہوں۔۔۔۔۔۔!

کوئی ہمارے بنا ایک پل بھی نہ رہ سکتا ہو۔۔۔۔۔۔!

ہم کسی کا سب کچھ ہوں یا کوئی ہمارے دل و دماغ میں بستا ہو۔۔۔۔۔۔!


اس کے یا ہمارے اردگرد خوشیوں، رونقوں و گہماگہمی کا سماں جب بھی میسر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

ان لمحات و جھمئیلوں میں ہم یا وہ فراموش ہو ہی جاتے ہیں۔


اگر کسی لمحے یاد آ بھی جاتی ہے تو سر جھٹک کر ان چکا چوند روشنئیوں، رنگینئیوں و رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!



وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾

’’اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘


ایک ماں باپ کے لئے اس کا بیٹا یا بیٹی، بچوں کے لئے والدین، بھائی بہن کے لئے ان کے بہن بھائی، میاں بیوی جو ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔

جن کے بنا زندگی کی رونقیں پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی ہیں۔

یہ تب تک ہی ہوتا ہے۔ جب تک سانسوں کہ روانی ہے۔

جیسے ہی سانسوں کی روانی کا ربط ٹوٹا۔۔۔۔۔۔۔

سب کچھ ختم۔۔۔۔۔۔!


اس کے بعد آپ کے وہی پیارے جو آپ کو کبھی اپنے سے اک پل بھی جدا کرنے سے بے چین و بیقرار ہو جاتے تھے۔

آپ کی واپسی کی راہیں تکتے تھے۔

آپ کی واپسی پر دیر ہو جانے سے آپ کو بار بار جلدی آنے کی تاکید کرتے تھے۔

ہمیشہ کے لئے کبھی نہ لوٹنے کے لئے آپ کو روانہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


سب سے بڑی تلخ حقیقت۔۔۔۔۔۔! 

کہ آپ کو دفنانے کے بعد کوئی آپ کے پاس ایک گھنٹہ رکنا تو درکنار چند منٹ بھی بھی نہیں رکتا۔۔۔۔۔۔!

سب جلدک سے واپسی کی راہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

کچھ آپ کے بہت قریبی تو جنازہ گاہ سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

آپ کو دفنانے تک بھی انتظار نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!


فقط چند گھنٹوں کے بعد آپ کی جدائی میں رونے کی شدت میں کمی آتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!


وقت سب سے بڑا پھاہا ہے۔۔۔۔۔۔!

سارے زخم دکھ درد وقت کے ساتھ ساتھ مندمل کرتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!


کچھ دنوں تک سب فراموش۔۔۔۔۔۔!


سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف و مشغول۔۔۔۔۔۔!


آجکل تو فوتیدگی بھی ایک ایونٹ ہے۔

گیدرنگ کا۔ سب اکھٹے ہوتے ہیں۔ سب کے ملن کا۔۔۔۔۔۔!

ادھر میت اٹھی ادھر کھانے کے دستر خوان بچھ گئے۔ اس کے بعد چائے کے دور چلتے ہیں۔ گپ شپ، ہنسی مذاق حتی کہ قہقہے تک لگانے کو مذائقہ نہیں سمجھا  جاتا۔

گروپس کی شکل میں دکھ سکھ شئیر کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


پھر قل شریف کا ختم اس سے بھی بڑا ایونٹ ہوتا ہے۔

نیا جوڑا زیبِ تن کر کے زیادہ ثواب کی نیت سے شمولیت کرنا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔

دستر خوان بچھا، کھایا پیا و واپسی کی راہ سدھاری۔۔۔۔۔۔!


برس دو برس تک بمشکل کسی شادی بیاہ و ایونٹ پر آپ کی یاد میں آنسو بہا لیے جاتے ہیں وہ بھی فقط چند گھڑیوں کے لئے۔۔۔۔۔۔!

اس کے بعد وہی دنیا کی رنگینئیاں و رعنائیاں۔۔۔۔۔۔!


برس 2-3 گزرنے کے بعد کسی خوشی کے موقع پر اگر آپ یاد آ بھی گئے تو سر جھٹک کر آپ کی یاد کو محو کر کے خوشیوں میں مصروف۔۔۔۔۔۔!

مبادا خوشی کے پل آپ کی نذر نہ ہو جائیں کہیں۔۔۔۔۔۔!


لائف میں کچھ بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!


بیشک ہر چیز کو فنا ہے۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, May 4, 2021

بیگانگی و اجنبیت

بیگانگی و اجنبیت

 

 ‏ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی کیلئے اپنا آپ سب کچھ تیاگ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اپنا سب کچھ۔۔۔۔۔۔!

بغیر کسی پرواہ و فکر کے۔۔۔۔۔۔!


اپنی ساری خوشیاں اس کی ایک مُسکان پر وار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


اس کیلئے زندگی کی تمام خوشیوں، رنگینئیوں، رعنائیوں، ہر کسی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


ہر چیز سے بیزار۔۔۔۔۔۔!


اپنے آپ کی بھی فکر و ہوش نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔!


اس کے زرا سا روٹھ جانے پر دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


سانسیں بوجھل و اٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


‏تمام دنیا کی خوشیاں، رونقیں، رنگینئیاں و رعنائیاں سب بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


بہار بھی خزاں کی مانند معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!

جیسے تپتے صحرا میں کئی دنوں سے پیاسے پھر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


پہروں اس کے ہونٹوں پر مسکان بکھیرنے کیلئے جتنوں میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اس کی مُسکان لوٹنے سے تب اٹکی سانس بحال ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!

 

‏پھر کبھی اس کی بےاعتنائی سے ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے

کہ اس شخص سے ہم ایسے بیگانے، ایسے پتھر دل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کہ پھر وہ چنداں بھی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔۔۔!


اس کے آنسو، اس کی تمام باتیں، اس کی کاوشیں، تمام جتن، ہزار صفائیاں و تاویلیں۔۔۔۔۔۔!

سب بے معنی، سب بیکار۔۔۔۔۔۔!


ہماری زات پر چنداں بھی اثر نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!

Friday, April 30, 2021

غلط فہمی

غلط فہمی 


 کبھی کبھار حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔ 

کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کیلئے تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


غیر ارادی طور پر کسی کی دل آزاری کا باعث بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی کی خوشیاں آپ کے کسی غیر ارادی اقدام کی بدولت مانند پڑ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


کسی محفل میں آپ کے کسی غیر ارادی فعل کی بدولت اس محفل کی رونقیں و روشنئیاں ماند سی پڑ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

 تناؤ کسی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!


‏کبھی کبھار کسی واقعہ کی حقیقت جانے بنا ہی ہم بدگمانی کا عفریت پال لیتے ہیں۔ 

یا کسی بیتے واقعہ کو درمیان میں لا کر الجھے ہوئے دھاگے کی ڈوری کا سرا تھام کر سلجھانے کے بجائے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کو بھی اس میں مزید الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ 

جو ان پلوں کی اپنائیت، شگفتگی و مسرتوں کو نگل جاتا یے۔

دونوں طرف جھنجھلاہٹ، غصہ، بے کیف و بوجھل پن، اکتاہٹ طاری ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


اس سےکہیں زیادہ بہتر ہے کہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس غلط فہمی کو ختم کرنے کی مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔!

اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔!


اپنی انانیت کے بت کو چند گھڑیوں کے لئے سائیڈ پر رکھ کر اس شخص کے تمام گلے شکوے، کڑوی کسیلی باتیں سن لینی چاہئیں۔

کوشش کریں کہ بغیر وقت ضائع کیے بنا اپنی جسٹیفیکیشنز لازمی دے دیں۔


اگر آپ دوسری سائیڈ پر ہیں تو اگلےکی ساری بات لازمی سن لیں۔۔۔۔۔۔!


جتنی جلدی سے جلدی ممکن ہو اس خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔!


رشتوں کی اپنائیت کو مزید گہرا و مضبوط کریں۔۔۔۔۔۔!


ایسا کرنے سے اس شخص کے دل کا سارا غبار و کثافت دھل کر کرسٹل کی مانند شفاف ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!


زندگی کی مُسکان لوٹ آتی ہے۔۔۔۔۔۔!

Wednesday, April 28, 2021

وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو

 "وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو"


’’سورة البقرة‘‘ کی اس آیت مبارکہ


﴿هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ ﴿١٨٧﴾

’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘


میاں بیوی کے رشتے کے لئے ایک جہاں آباد ہے۔۔۔۔۔۔!


اس ازدواجی رشتہ کے کینوس پر بکھرے اسکیچ میں حقیقت کے رنگ بکھیرنے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کینوس ہمارے پاس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

اور رنگ بھی ہمارے پاس۔۔۔۔۔۔!


یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس اسکیچ کو ایسے ہی رہنے دینا۔۔۔۔۔۔۔!


اس میں سیاہی بکھیرنی یا پیار، انسیت، محبت، کئیر، اعتماد، شائستہ لہجے کے گلئیٹرز سے اس کینوس کو اچھوتا، دلفریب، خوشنما، خوش کُن و مسحور بنانا یے۔۔۔۔۔۔!


چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت کچھ حقیقی خوش نما رنگ ڈھالے جاسکتے۔۔۔۔۔۔!

فقط تھوڑی سی کئیر سے۔۔۔۔۔۔!

اپنی انانیت کےخول سے نکل کر اگر اس کو نصف بہتر تسلیم کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔!


اگر اس لباس کو اپنی خوش نصیبی و خوش قسمتی تصور کر لیا جائے تو۔۔۔۔۔۔!


یہ سب کچھ ایکدم سے چٹکی بجاتے نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!

اس کے لئے برسوں کی کڑی تپسیا چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


ہاں کچھ لوگ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ 

کہ جن کی کیمسٹری فقط چند دن کی رفاقت سے اتنی گہری و پختہ ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!

ان کے بانڈز ایسے مل جاتے ہیں۔ جیسے وہ ازلوں سے فقط ایک دوسرے کے لئے ہی ڈھالے گئے تھے۔۔۔۔۔۔!


جب ہم اپنی انانیت کے خول سے نکل کر اس بات کو کنسیڈر کر لیں گے۔ 

کہ اس نے مجھے بھی تو میری تمام خامیوں سمیت قبول کر لیا ہے۔ 

تو میں کیوں اس کی زات کو اس کی تمام خامیوں کے ساتھ تسلیم نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔!


اس رشتے میں ایک دوسرے کے لئے بہت زیادہ لچک کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔!

جب ایک غصہ کر رہا ہو، چیخ چلا رہا ہو تو دوسرے کو اس وقت خامشی کا روپ دھار لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔!


بعض اوقات اگلا غلط بھی ہوتا ہے۔ 

لیکن ہمارے اس وقت آگے سے چیخنے چلانے کے بجائے خامشی سادھے رہنے سے یا اپنی پوزیشن واضح کر دینے سے اس شخص پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔!


ہاں یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایسے موقعوں پر ہماری دی جانے والی ہر وضاحت ہمارے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ 

لیکن ہماری اس وقت کی خامشی اس پر گہری چھاپ ضرور ڈال دیتی ہے۔۔۔۔۔۔!


جب ہم چاہ رہے ہوتے ہیں دوسرا بھی بولے، چیخے چلائے۔۔۔۔۔۔۔

کچھ وقت کے بعد اس کو لازمی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ آپ سے بے دلی سے ہی سہی معدزت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

یا باتوں باتوں میں آپ سے ہم کلامی کی کوشش کرتا یے۔۔۔۔۔۔!


کبھی کبھار دوسرے اینڈ پر ہمیں بالکل نظر انداز بھی کر دیا جاتا یے۔۔۔۔۔۔!

لیکن ہمارے اسی طرح کے اس کے حوالے سے روزمرہ کے کاموں کی روٹین سے اس کو اپنا یہ انداز بدلنے پر مجبور ضرور کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


دو مختلف مزاج، مختلف دنیاؤں کے باسی فقط 3 بول پڑھ کر ایک دھاگے میں پرو دئیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


یہ رشتہ بیک وقت مضبوط و نازکی کے مابین ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!

مضبوط ایسا کہ اس سے نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

اور نازک ایسا کہ جیسے فقط چند لفظوں سے لباس بن گیا تھا ایسے ہی فقط چند بولوں سے یہ چٹان کی مانند مضبوط رشتہ دیمک زدہ کواڑ کی مانند ایک لمحے میں زمین بوس۔۔۔۔۔۔!

سب کچھ ختم۔۔۔۔۔۔!


ایک دوسرے کی زات کو تسلیم کرن۔

اس کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔


آپ پر منحصر ہے۔۔۔۔۔۔!

کہ آپ اس رشتے کو مزید مضبوط، گہرا بنانا چاہتے ہیں۔

 یا اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر اپنی قسمت کا رونا روتے تمام عمر بتا دیں۔۔۔۔۔۔!

ہزاروں خواہشیں ایسی

 

Monday, April 26, 2021

قابلِ عزت ٹیچرز مئیرٹ تقرری

قابلِ عزت ٹیچرز مئیرٹ تقرری


 ان تمام نقادوں کی خدمت میں پیش خدمت جو کسی پروسیجر کی الف ب نہیں جانتے اور نقادی کا شغل جھاڑتے ہوئے ٹیچرز پر سفارشی بھرتیوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔


سب سے پہلے تو حکومت پنجاب کی جانب  سے باقاعدہ اس سال کہ بھرتی کی پالیسی ایشو ہوئی تھی۔

اس تفصیلی پالیسی میں تمام کیڈرز کی اپائنٹمنٹ پروسیجر و کرائیٹیریا مختص تھا۔

ساتھ جلی حروف میں مینشن تھا۔

'خالصتََا میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہو گی"۔


الْحَمْدُ الِلَّهِ

تمام قابلِ عزت ٹیچرز ٹف میرٹ کمپئیٹ کر کے میرٹ پر اپوائنٹ ہوئے ہیں۔


ہر ضلع نے اپنی ضلعی Vacancies کے مطابق باقاعدہ اخبار پر اشتہارات پبلش کروائے تھے۔

تمام پروسیجر کا ٹائم لائن مختص کیا گیا تھا۔

 اور NTS web پر Application Form اور  Test Content Update ہوا تھا۔

ٹیچرز نے NTS Web پر آنلائن اپلائی کیا تھا۔ 

فارم پرنٹ آؤٹ کر کے بھیجے تھے۔ 

پھر NTS Web پر رولنمبر سلپس اپ لوڈ ہوئیں۔

وہ پرنٹ آؤٹ لیکر امتحانی سینٹر پہنچے تھے۔۔


ہم بھی اس وقت پرائمری ٹیچر تھے۔ کیا شاندار دور تھا۔ ایک کلاس بھی فری نہیں ہوتی تھی۔ 60-70 بچوں کی اوور کراؤڈڈ کلاس۔ ٹیچرز کی تعداد کم۔ تعداد کی وجہ سے سبجیکٹس کے مطابق 6 پیریڈز کا ٹائم ٹیبل بنایا۔ 2 پیریڈز میں 60-70 طلباء کی اوور کراؤڈڈ 2-2 کلاسز سبھالتے تھے۔ لنڈے کے ارسطو نقادی جھاڑتے ہیں کہ گورنمنٹ ٹیچرز مفت کی بٹور رہے ہیں۔ پڑھاتے نہیں ہیں۔ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔ 


پھر ہماری فلی ائیر کنڈیشنڈ کلاس رومز تھیں۔

درختوں کے گھنی چھاؤں تلے اور سورج کے ساتھ ساتھ ہماری موومنٹ بھی بڑھتی رہتی۔ بچے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسے طاق ہو چکے تھے کہ گھنٹی بجتے ہی مانئیٹرز کی کمانڈ میں مارچ شروع کر کے درختوں کی گھنئیری چھاؤں میں ڈیرے جما لیتے تھے۔ 


سردیوں، جاڑے، کُہر و دُھند میں خیر ہیٹر کا بندوبست نہ ہوتا تھا۔ کُہر و دُھند میں جب گلوز میں بھی ہاتھ یخ ہو جاتے تھے۔ ایسے شدید ترین موسم میں نیلگون امبر تلے اوپن ائیر کلاس رومز میں طالبعلم کُہر و دھند کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی فیضیاب ہوتے تھے۔ خیر وقت و ماحول کے ساتھ ساتھ انسان مطابقت کر ہی لیتا۔ اس کے حل کے طور پر میری ساری فورس ان کے کمانڈوز میرے پہنچتے ہی فورا کاروائی رپورٹ پیش کرتے۔ 

استاد جی آج کے دن کا اسلحہ ڈپو میں جمع ہو گیا ہے۔

درختوں کے گرے سوکھے پتے، ٹوٹی شاخیں، ٹہنیاں، گھاس پھونس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر اس کو جلانے کے بعد دائرہ بنا کر اس کے گرد دن کا آغاز ہوتا۔۔۔۔اور وقتا فوقتا اس کو بڑھکا کر کچھ موسم کی سختی کا مقابلہ کرنے کی ہمت آ ہی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ 


خیر میرا سروس میکہ تھا۔

پرسکون اسٹیشن

شاندار ماحول

Best Atmosphere to Teach

ایچ ایم زندہ دل، خوش مزاج و حقیقی معنوں میں فیملی کے سربراہ تھے۔ بہترین کوآرڈینیٹر و لیڈر جو ہر مشکل میں خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیتے تھے۔ جو تمام فیملی کو ایک مٹھی کی مانند جوڑے رکھتا ہے۔ گرم و سرد حالات حالات سے بچائے رکھتا ہے۔ 

انتہائی محنتی، قابل، دوستانہ، مشفق و مہربان کولیگز، ہر ایک معاملے پر چھتری بن جانے والے سینئرز و باقی کولیگز۔ فیملی جیسا ماحول تھا۔ جس کی بدولت یہ حالات کچھ خاص معنی نہ رکھتے تھے۔ 

باتوں ہی باتوں میں سروس میکے کا سلسلہ چل نکلا۔ سسرال میں چائے جتنا مرضی آرام سکھ و آسائش ہو لیکن ہا ہ ہ ہ ئے وہ میکے کی چاشنی و دلفریبی و سکھ کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔

رنگوں میں اک رنگ گلابی

آنچل، چہرہ، ہونٹ، گلابی

ہائے اب کیا کہیں؟ 

کیسے کہیں؟

کیسے بتائیں؟

جیسے ہی سوالیہ کاپیاں کمرے میں آئیں۔

ٹاپ پہ پڑی مسحور کُن و دلفریب ‎پنک کاپی کو دیکھ کے ٹیسٹ کی ساری Tension، کلفت و تھکان جھٹ سے رفو ہو گئی (مجال ہے جو ٹیسٹ کے لئے زرا سی کوئی کتاب کھول کے پڑھنے کی زحمت گوارا کی تھی) 

لبوں پہ بے اختیار مسکراہٹ بکھر گئی. 

طبیعت میں شگفتگی بکھر گئی. 

جاڑے میں کھڑکیوں سے اترتی نرم نرم روپیلی دھوپ کی تمازت میں نکھری نکھری پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔پنک کاپی نے چاروں اور قوس وقزع کے رنگ بکھیر دئیے۔۔۔۔۔ہمیں بالاخر پنک کاپی مل گئی۔۔۔۔۔جسکی بدولت 2015ء میں ESE اپوائنٹ ہوئے۔ پھر اب SESE.......... 


خیر اس کے بعد اپنے دوسرے NTS TEST جو کہ SSE کیلئے تھا۔ ہم ایک دفعہ پھر سے کمرہ امتحان میں نشست سنبھالے بیٹھے تھے۔ بار بار نظریں گلابی کاپی کی اور جا کر گھڑی کی سوئیوں پہ رک جاتی تھیں۔ جو منہ چڑا رہی تھیں کہ ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے خیر خدا خدا کرکے وقت سست روی سے سرکنا شروع ہوا۔ وہ لمحہ آن پہنچا جب ایگزمنر صاحب اٹھے و کاپیاں تھامیں۔ دل کی ہر 1 دھڑکن پکار رہی تھی۔ پنک کاپی۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔!

ایک ایک کرکے تمام Candidates کو Examiner صاحب کاپیاں تھمائے جا رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو ہمیں تھمائی گئی Yellow Copy ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نےبادل نخواستہ کاپی تھامی۔ کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آرہی تھی۔ بس خشمگین نگاہوں سےایگزامنر صاحب کو تکتے رہے۔ کچھ توقف کے بعد اوسان کچھ بحال ہوئے تو ایگزامنر صاحب سے دکھی دل سے Request کی کہ سر پنک کاپی مل سکتی ہے۔ حسب توقع ایگزامنر صاحب نے مسند ایگزامنر پہ براجمان ہونے و ہمارا صنفِ کرخت ہونے کی سبب فورا رد کیا اور فرمان جاری کیا۔ 

کہ جو مل چکی یے اسے ہی حل کریں۔

(کیا پتا اگر ‎صنفِ کرخت نگران کے بجائے کوئی صنفِ نازک نگران ہوتی تو ہماری سوالیہ شکل و التجائیہ لہجے سے متاثر ہو کے مُسکان بکھیر کے پنک کاپی تھما دیتیں) 

بعد میں سب سے آنکھ بچا کے پھر ریکویسٹ کی جو Candidate آج کے دن Absent ہیں۔ اس میں سے کسی کی پنک کاپی عنایت فرما کر دلیِ تشکر و ممنون ہونے کا موقع عنایت فرمائیں۔ 

لیکن جواب ندارد۔

خیر دل کےارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!

بار بار نگاہیں بے اختیار پنک کاپی تھامے خوش نصیبوں کی طرف اٹھتیں۔ دل سے ہوک اٹھتی و ہم دکھی دل سے دھیان اپنی پیلو کاپی میں کھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

آسمان کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا

دھیان میں ہے چہرہ ایک مہتابی سا

اب اس کا اثر یہ ہوا۔

کہ ہم UC Marks سے نوازنے والوں کی لسٹ میں نہیں تھے۔ لہذا میرٹ پر ہونے کے باوجود UC Marks نہ ہونے کی بدولت میرٹ سے آؤٹ کر دئیے گئے۔ خیر قسمت میں دانا پانی اسی کیڈر کا لکھا تھا۔۔۔۔۔

اس پاک زات کا بصد شکر وہ جس حال میں بھی رکھیں۔ 


پھر اوریجنل کاپی ہم سے لیکر کاربن کاپی ہمیں تھما دی گئی تھی۔ 

 

شام کے وقت NTS web پر Keys اپ لوڈ ہوئیں. کاربن کاپی تھامی دل کی بے ترتیب ہوئی دھڑکنوں کو پھیلتی سراسیمگی کو سنبھالا۔ ٹھنڈے پانی کے 2-3 گلاس پئیے۔ کینز کے مطابق اسکورنگ کرتے سانسیں اٹک رہی تھی۔ Heart Beat بڑھ رہی تھی۔ Pulse Rate اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ بالاخر اسکورننگ مکمل ہوئی۔ پرسکون ہوئے کہ مارکس اچھے تھے میرٹ میں مقابلہ ہو سکتا ہے۔

 

کچھ وقت کے بعد NTS Web پر رزلٹ Upload ہوا تھا۔ 

 

پھر بائی ڈاک ہمیں DMC بھیجی گئیں۔ 

 

ایپلیکیشن فارم، ڈگریوں و سروس ریکارڈ کی مصدقہ نقول، ڈیپارٹمنل کوڈل فارمیلٹیز کے مطابق فائل میں لف کر کے متعلقہ اتھارٹی آفس جمع کروائی۔  

ہر ضلع میں ہزاروں درخواستیں مطلوبہ اتھارٹیز کے آفسز میں جمع ہوئیں۔

ریکروٹمنٹ کے سلسلے میں ضلعی سطح پر چئیرپرسن، فوکل پرسن، کمیٹی ممبرز و باقی تمام لوگ باقاعدہ نوٹیفائیڈ ہوئے۔

سکروٹنی کمیٹیز بنیں۔

ریکارڈ کی کڑی جانچ پڑتال ہوئی۔

پھر پری انٹرویو میرٹ لسٹیں آویزاں ہوئیں۔

اعتراضات کی لسٹیں چسپاں کی گئیں۔

ان کو دور کرنے کا Timeline دیا گیا۔

اعتراضات دور کرنے کا وقت دیا گیا۔

پھر انٹرویوز کمیٹیز نوٹیفائیڈ کی گئیں۔

انٹرویو وینئیوز میں Cadre وائز Timeline کے مطابق انٹرویوز کا انعقاد کیا گیا۔

تمام مرحلہ مکمل ہوا۔

سکروٹنی کمیٹیوں نے پھر ریکارڈ کی سکروٹنی کی۔

پوسٹ انٹرویو میرٹ لسٹیں لگیں۔

اعتراضات کیلئے وقت دیا گیا۔

اعتراضات دور کرنے کے بعد پھر سکروٹنی ہوئی۔

لاہور سے باقاعدہ ٹیمیں نوٹیفائیڈ ہوئیں۔

ان ٹیموں نے سکروٹنی کی۔

پھر ایک دفعہ سکروٹنی کیلئے ہر ضلع میں ٹیمیں روانہ کی گئیں۔

کچھ ضلعوں میں میرٹ کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اس میں ملوث لوگوں کو سسپینڈ کر کے درخواست گزاروں کو فوری انصاف مہیا کیا گیا۔ 

منتخب ہونے والوں کا ریکارڈ سکروٹنی کیلئے لاہور منگوایا گیا۔ تمام اتھارٹیز خود ریکارڈ لیکر گئی تھیں۔

پھر ہر ضلع کہ Top Cream کو اپائنٹمنٹ آرڈر ایشو ہوئے۔

 

لنڈے کے فلاسفر و نقاد جن کو اس پروسیجر کی الف ب کا بھی علم نہیں۔ وہ الزام تراشی جھاڑ رہے سفارشی تقرری ہوئی۔ اگر سفارشی تقرری تھی تو آپ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے مستفید ہونے سے کیوں پیچھے پیچھے رہے۔ آپ بھی سفارش سے بھرتی ہو جاتے۔ 

 

اگر پھر بھی کسی کو قابلِ عزت ٹیچرز کے میرٹ پر تقرری میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہے تو وہ تھوڑی سی زحمت فرما کر ضلعی

DEO (EE-M) OFFICE 

DEO (EE-F) OFFICE 

DEO-SE OFFICE

کا وزٹ کرنے کی زحمت فرما لے۔ ہر ایک چیز کا ریکارڈ و ثبوت  مل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔!

Thursday, April 22, 2021

جاگنا سحری کیلئے ہوتا ہے, یہ ڈھول والا شادی کے جذبات جگا کر چلا جاتا ہے

جاگنا سحری کیلئے ہوتا ہے

یہ ڈھول والا شادی کے جذبات جگا کر چلا جاتا ہے 


خوابوں کی رنگین و طلسمی دنیا میں رسمِ حنا کی تقریب میں شان سے سنگھار کی ہوئی کرسی و اسٹیج پر میرِمحفل بنے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

سفید سوٹ کی گریس و خوشنما قوس و قزع کے رنگوں سے مزین مہندی والا ڈوپٹہ جچ بھی کیا خوب رہا ہے۔۔۔۔۔۔!


 ہم پر پاکستانی کرنسی کے بے تحاشہ نوٹ نچھاور ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور ہم پر وارے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!

جن کو حاصل کرنے کے لیے ہم سحر خیزی سے سرِشام تو کبھی کبھار رات گئے تلک تگ ودو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ 


ساتھ میں دوستوں و کزنز کی گیدرنگ و ہنسی مذاق سے محفل کشتِ زعفران ہو رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!


پھر سہرا بندی کی تقریب میں شان سے دلہا کی مسند پر خوشی و انبساط سے براجمان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!


کافی اہتمام سے تیار ہو کر دلہا کے زرق برق و مخصوص لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

سلامیوں کے ساتھ ساتھ فیملی ممبرز دوست و کزنز ہم پر نوٹ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

ظاہر سی بات ہے کل کو ہم نے بھی ان کی شادی پر ایسےہی نچھاور کئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ آج بڑھ چڑھ کر اس کام کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ 

کیونکہ وہ کیا مشہور کہاوت ہے کہ جتنا گڑھ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا. (ظاہر سی بات ہے زندگی میں اتنی بڑی خوشی و برسوں کی منتوں مرادوں سے آنے والا موقع ہے تو زبان و اندازِ بیان و گفتگو و لب و لہجہ تو ویسے ہی انتہائی شیریں ہوگا) ساتھ میں ہماری طرف بھی داد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ 


چونکہ مشرقیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دلہے میاں عموما خاموش ہوتے ہیں۔ (باتیں کرنا و خوشی و انبساط کا اظہار کرنا کچھ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ 

حالانکہ آج ہی تو خوشی کو جی بھر کے منانے کا موقع میسر آیا۔۔۔۔۔۔۔لیکن خیر) شادی کے بعد بالکل خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی وجہ سے ہم صرف مسکرا کر ہی ان کو داد دےرہےہیں۔۔۔۔۔۔!


تحفے میں ملی خوبصورت و قیمتی گھڑی میں بار بار ٹائم دیکھتے ہیں۔ 
تاکہ سب کووقت کی اہمیت کا احساس دلا سکیں۔۔۔۔۔۔!


ہمارے بار بار کے توجہ دلاؤ نوٹس کے باوجود سب فوٹو سیشن و سلفیوںِ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ 
البتہ کوئی منچلہ چٹکلا چھوڑ دیتا ہے کہ دولہے میاں گھڑی خوبصورت ہے اور رائیٹ ٹائم ہے۔ 
اور اتنی بھی بے چینی کس لئے بھابھی ابھی پارلر ہوں گی آپ نے وہاں پہلے پہنچ کر کیا لینا۔ 
اتنے برسوں صبر کر لیا اب کچھ منٹ اور صبر کے گھونٹ پیتے رہیں۔ 
اب مشرقیت کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مشرقی دولہا ہونے کی وجہ سے خود کیسے کہیں کہ فوٹو سیشن و سلفیوں کا دور جلدی اختتام پزیر کریں۔

تاکہ جلدی سے گامزنِ منزل ہو کر فتح یاب ہو کر اپنی گُل و گُلِ رخ، ماہ وش، ماہ پارہ، ماہ جبین، پری تمثال و زہرہ جبین کے سنگ فتح و کامرانی کے نشے سے چور چور ہو کر
واپسی کی راہ لیں۔ 
دِلی ہنوز دور است۔۔۔۔۔۔۔۔ 
لگتا ہے ایسے ہی کسی خاص موقع پر کہا گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر بار بار کی دل سے مانگی جانے والی دعا سے دلی مراد بر آتی ہے۔ 
اور اللّٰہ اللّٰہ کرکے بارات جانب منزل گامزن ہوتی ہے۔
اور ہم سب سے پہلے منزل تک پہنچنے کے متمنی و خواہش مند۔ 
جی چاہ رہا کہ ہوا کے رتھ سوار کر وہاں پہنچیں۔ 

راستے میں بارات کےساتھ لیٹ شامل ہونے والے عزیز واقارب و بہت قریبی دوست گلے لگا کر مبارکباد کے ساتھ گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ 
جس سے قافلہ کے بار بار توقف کی سبب سےہم اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں۔ 
لیکن کیا کریں وہی مشرقیت۔۔۔۔۔۔۔
سو مجبورا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی منزل قریب سےقریب تر آتی ہے۔ دل کی دھڑکنیں بے اختیار بے ترتیب ہونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

خیر قصہ مختص۔۔۔۔۔۔!
جونہی ہم منزل پر پہنچتے ہیں۔ 
بارات کو ویلکم کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

ساتھ ہی ساتھ ہمارے کانوں میں ڈھول کی آواز مسلسل بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ 
ہم اس ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کانوں میں انگلی چلا کر اس آواز کو کم کرنے کی بہتیرا کوشش کرتےہیں لیکن تمام کوششیں بے کار و بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ 
اور گھبراہٹ کےمارے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ 
کچھ دیر بعد جب ہمارے ہوش و حواس اپنے ٹھکانے پر آتے ہیں تو سارا ماجرا سمجھ میں آتا ہے۔
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ ڈھول ہیں جو ہمارےارمانوں کا خون کرتےہوئے ڈنکے کی چوٹ پہ اس بات پہ کا شدومد کے ساتھ اعلان کررہے ہیں۔ 
کہ سحری کا ٹائم ہو گیا ہے سحری کر لیں۔۔۔۔۔۔!

کچھ لمحات پہلے کے میرِ محفل منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر ٹھنڈے پانی کا گلاس پی کر حیرت و گومگو کی کیفیت کے ساتھ کانوں میں پڑتی ڈھول کی آواز کے ساتھ سحری کے لئے دہی لینے جانبِ منزل گامزن ہیں۔۔۔۔۔۔!

Sunday, April 18, 2021

کالج برائے خواتین / گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن

 "کالج برائے خواتین" 

"گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن"


مرد چاہے جتنی بھی ایج کے ہو جائیں ان کے لئے 

"کالج فار بوائز" ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔!


اس کے برعکس لڑکیاں جیسے ہی میٹرک پاس کیا خواتین ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


 "کالج برائے خواتین" "گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن" 


وہ لڑکیاں جو بے صبری و بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں 

کہ کب کالج لائف گزارنے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔

وہ ان دنوں کو انجوائے کرنے کے سنہری سپنے بنتی رہتی ہیں۔ 

ایڈمیشن کے لئے جونہی لڑکیاں پہلے دن گھر سے خوب بن سنور کر، شاداں و فرحان نکلتی ہیں۔ 


جن کی نظریں اس کالج بورڈ پہ نہیں پڑتی۔

وہ خوشی خوشی کالج کے تمام ڈیپارٹمنٹس  و کوریڈورز، لانز میں خوشی خوشی ہرنیوں کی مانند قلانچیں بھرتیں، خراماں خراماں سُبک رو اِدھر سے اُدھر چہل قدمی کر رہی ہیں۔ 


نئی فرینڈز بنا رہی ہیں۔ 

خوش گپیاں ہانک رہی ہیں۔ 

کینٹین میں جوس، بوتلیں و سموسے، کوکیز و چائے کے کپ اڑا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔!


وہ جن کی نظر غلطی سے جیسے ہی کالج گیٹ کے عین اوپر بورڈ پر پڑتی ہے 

جس پہ جلی حروف سے لکھا ہوتا ہے 

"کالج برائے خواتین" 


تو ان کے سارے ارمان جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ 

شاید انہی موقعوں کے لئے وہ گانا بنا ہو گا۔

دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔۔۔۔!


اسی وجہ سے شاید کہا گیا ہے کہ کچھ موقعوں پہ لاعلمی ہی بہتر ہے۔ 

بار بار ان کی نظروں کے سامنے بورڈ جس پر جلی حروف میں کنداں "کالج برائے خواتین" لکھا نظر آ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ ادھر سے ادھر بے دلی سے کالج کے در و دیواروں کو یاس و امید کا مرقع بنی نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ 


جن پہ زیادہ اثر ہوتا ہے وہ نظروں سے کالج کے کوریڈورز, ڈیپارٹمنٹس, لانز کو ناپ رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔


اسی سبب کلئیریکل آفس میں بھی گم سم نظر آتی ہیں اور کئی تو کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا ایڈمیشن فارم لینے کے بجائے کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا فارم لے آتی ہیں۔ 


ان کا بس نہیں چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ سے جان چھڑا کر جلدی جلدی ہوا کے رتھ پر سوار ہو کر گھر پہنچ کر سکون کی سانس لیں۔۔۔۔۔۔!


جونہی وہ گھر پہنچتی ہیں کالج فائل، ایڈمیشن فارم، ہینڈ بیگ غصے سے پٹخ دیتی ہیں۔ 

گھر والے محترمہ کے ایٹیچیوڈ کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ 

ہائے ہائے۔۔۔۔۔۔! 

بے چاری کو پتا نہیں کتنی مشکلوں سے فارم ملا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔

پہلا دن تھا نہ جان نہ پہچان پتا نہیں کہاں کہاں ماری ماری پھرتی رہی ہو گی۔۔۔۔۔۔

کوئی پانی کا گلاس تو لا کے دو۔۔۔۔۔۔!


وہ محترمہ غائب دماغی سے بس جی ہوں، ہاں جی، جی ہاں، ہوں ہوں میں جواب دے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔! 


اگر کوئی بھائی غلطی سے تنگ کر لے جواب ندارد۔۔۔۔۔۔!

کہ لگتا محترمہ ابھی تک کالج کے سحر میں جکڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔!


اور مارے شامت اعمال کے اگر وہ ایڈمیشن فارم بھی اٹھا کے دیکھ لیں تو فلک شگاف قہقہے۔۔۔۔۔۔!


گھر والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں

اے لو۔۔۔۔۔۔! انہیں اب کیا ہو گیا؟ 

ایک تو یہ محترمہ چپ کا روزہ بنی بیٹھی ہیں اور ادھر یہ برخودار ہنسے چلے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔!


وہ موصوف بجائے بتانے کے بس وہ ایڈمیشن فارم باقی بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ 

اور پھر ہر طرف سے قہقہوں کے طوفان۔۔۔۔۔۔!


ایسے میں والدہ محترمہ سب کی شان میں جیسے ہی قصیدے پڑھتی ہیں۔۔۔۔۔۔! 

تو اصل بات ان کے گوش گزار کرتے ہیں۔


تب جا کہ محترمہ بھی اصل حقیقت سے آشنا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔! 

بس پھر کیا ان بھائی صاحب کی شامت نہیں وہ آگے آگے اور۔۔۔۔۔۔!


جب موصوف کسی طرح بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتے تو وہ رونے بیٹھ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


ایک دفعہ پھر والدہ سب کی شان میں قصیدے پڑھتی ہیں اور ان محترمہ کو دلاسے دیتی ہیں کہ کوئی بات نہیں میری بچی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پہ نہیں لیتے۔۔۔۔۔۔!


وہ محترمہ ان منحوس لمحات کو کوس رہی ہوتی ہیں جب ان کی نظر اس بورڈ پہ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔!


پھر کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ بس کسی طرح اس منحوس بورڈ پہ نظر نہ پڑے۔۔۔۔۔۔!


اگر کبھی غلطی سے نظر کبھی پڑ بھی جائے تو فورا اس سے منہ موڑ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔!


گھر سے کلاس بنک کرنے کا منصوبہ بنا کر اور اس کو سہیلیوں کے گوشِ گزار کر کے قلبِ مطمئنہ و شاداں و فرحان سے اگلے دن جیسے ہی کالج گیٹ پر پہنچتی ہیں کالج بورڈ پر نظر پڑتے ہی یک دم ساری پلاننگ دھبڑ دھوس و مزہ کرکرا۔۔۔۔۔۔!

کئہیوں کا تو بس نہیں چلتا کہ اس منحوس بورڈ کو اکھاڑ پھینکیں اور میونسپٹی کا ٹرک اسے کہیں دور پھینک آئے۔۔۔۔۔۔!


اس کی جگہ

 "کالج فار گرلز" "لڑکیوں کا کالج" "کالج فار ٹین ایجر گرلز" "کالج فار انڈر 15 گرلز" "کالج فار انڈر 17 گرلز" 

کے جلی حروف سے خوشنما بورڈ اپنے ہاتھوں آویزاں کر دیں۔۔۔۔۔۔!

جس کی تذئین و آرائش وہ خود اپنے ہاتھوں سے جدید خطوط کے مطابق استوار کریں۔۔۔۔۔۔!


Wednesday, April 14, 2021

خُود کُشی

خُود کُشی


اکثر کہہ دیا جاتا ہے خود کشی کرنے والا انتہائی بزدل ہوتا۔۔۔۔۔۔!

جو حالات کا مقابلہ نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔!

یہ وہ فلاں فلاں۔۔۔۔۔۔۔۔


 ‏کس نے کہہ دیا خود کشی کرنا بزدلانہ کام ہے؟؟؟


موت کو گلے لگانا آسان کام ہے؟؟؟؟


کسی سے پوچھ لیں کیا کوئی اس دنیا میں خود سے مرنا چاہتا ہے؟؟؟؟ 

کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔


خود مرنا آسان نہیں ہوتا..........

اس کے لئے بہت بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت زیادہ ہمت، حوصلے و جرات کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


موت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اپنی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کبھی کسی نے زحمت فرمائی کہ خود کشی کرنے والے پہ کیا بیتی؟؟؟؟


کسی نے آج تک زحمت فرمائی کہ کوئی خود کشی کی نہج تک پہنچا کیسے؟؟؟؟


کبھی کسی نے کسی خود کشی کے پیچھے وجہ جاننے کی زحمت فرمائی کہ کیوں اس نہج تک پہنچ کر یہ قدم اٹھایا؟؟


کیوں اس نے اپنے ہاتھوں سے زندگی کا چراغ گل کر دیا؟؟؟؟؟


کیا کچھ اسے سہنا پڑ رہا تھا کہ ناقابل برداشت ہو کے یہ قدم اٹھایا۔۔۔۔۔


دکھ سہنا اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہو گا۔۔۔۔۔


دماغ پر کسی کی باتیں ہتھوڑوں کی مانند برستی ہوں گی۔۔۔۔۔


دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہو گئی ہوں گی۔۔۔۔۔۔


روح تک کو چھلنی و گھائل کر دیا ہو گا۔۔۔۔۔۔


بےمعنی ہو جاتا ہے سب کچھ۔۔۔۔۔۔

سب کچھ۔۔۔۔۔


سب رنگ بے رنگ لگتے ہیں۔۔۔۔۔


قوس و قزح کے رنگ و روشنیاں و رعنائیاں و رنگینیاں سب سیاہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کی مانند محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


جس پر بیت رہی ہوتی وہی جانتا ہے فقط۔۔۔۔۔۔۔۔


پل پل کے مرنے سے ایک دفعہ کا مرنا آسان ہوتا۔۔۔۔۔


زندہ درگور ہونے سے ایک دفعہ مرنا آسان۔۔۔۔۔


باقی حوالے و ریفرنسز بہت دئیے جاسکتے ہیں۔

کیونکہ ہم پر وہ بیت نہیں رہی ہم اس ٹاپک پر زمین و آسان کے قلابے ملا سکتے۔۔۔۔۔۔۔


جو جس پر بیت رہی ہوتی ہے فقط وہی جانتا ہے۔۔۔۔۔۔!

جو دکھ، قرب، تکلیف، رنج و الم کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

چکی کے پاٹوں کے درمیان گھس گھس کر ختم کو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی بہتر جانتا ہے کیسے پس رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پستے و دو پاٹوں کے درمیان رگڑے جانے کی کیا تکلیف ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور باہر منظر دیکھنے والوں کو فقط و آٹا گرتا نظر آتا۔۔۔۔۔۔

اس دانے پر کیا بیت رہی وہ محسوس تب ہو گا جب ہلکا سا اس پراسیس سے گزریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


‏جب میں نے 4-5 روٹیاں بہترین 3-4 ڈشوں کے ساتھ اڑائی ہوں۔ میں فاقہ کشی کے منظر پر بہت اچھا بھاشن جھاڑوں گا۔۔۔۔۔۔

اس کے حوالے سے ریفرینسز کوٹ کروں گا تاریخی حوالوں کا ایک انبار لگا دوں گا۔۔۔۔۔

لیکن جب میرا پیٹ و آنتیں قل ہو اللّٰہ پڑ رہی ہوں گی۔تو کل کی روٹی وسالن پر لپکوں گا پہلے۔ 

سب بھاشن چھوڑ کر۔۔۔۔۔۔


رَبُّ العِزت۔۔۔۔۔۔!

سے بس ہر وقت یہی دُعا کرتے رہنا چاہیے۔ کہ وہ پاک کریم، رحمن و الرحیم ہم سب کو ایسی صورتحال سے محفوظ فرمائیں۔۔۔۔۔۔!

آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔!

 یَا رَبِّ الْعَالَمِينَ۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, April 6, 2021

بارش، رِم جھم، ریشمی پھوار و شبنمی بوندیں

 بارش، رِم جھم، ریشمی پھوار و شبنمی بوندیں


انتہائی دلکش، دلفریب و دل کے تاروں و سُروں کو بے اختیار چھیڑتی ملگجی صُبح سے ہی آوارہ بادلوں کا پھر سے اٹھکیلیوں کا دلاویز منظر۔۔۔۔۔۔!

صبح سویرے بھیگی بھیگی بادِ صبا و بادِ نسیم و بادِ شمیم میں ابر کی آنکھ مچولی کا منظر۔۔۔۔۔۔!

ٹھنڈی مُدھر ہوا کے جھونکوں نے موسم کی رنگینی و دلفریبی کو برستی پھوار نے مزید بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔!

برستی پھوار نے دل و دماغ کو شگفتہ و تروتازہ کر دیا۔۔۔۔۔۔!


آرٹسٹک لینڈ سکیپ کی طرح ملگجے موسم میں سر سبز و شاداب رستے و بارش کی وجہ سے نکھرے و کھلے کھلے پیڑ و پودے۔۔۔۔۔۔!

سرسوں کے کھلے پھولوں والے کھیتوں و کھلیانوں نے اس موسم کی رنگینی کو مزید بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔!


ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں تن من کے تاروں و سُروں کو بے اختیار چھیڑتی برستی پھوار۔۔۔۔۔۔!

فضا میں رچی بسی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک۔۔۔۔۔۔!

بادِ صبا و بادِ نسیم و بادِ شمیم کے مُدھر جھونکوں کے ساتھ گلاب کی بھیگی بھیگی بھینی بھینی مہک۔۔۔۔۔۔!

فضامیں جلترنگ بکھیرتی کلاسیکی موسیقی۔۔۔۔۔۔!

گرما گرم بھاپ اُڑاتے چائے ☕ کے سپ نے موسم کی دلفریبی و رنگینی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔۔۔۔۔۔!

دل کے تاروں کو بے اختیار چھیڑ دیا ہے۔۔۔۔۔۔!


ایسے خوبصورت، دلکش و رُومانوی موسم میں آج اہتمام سے بنائے گئے کُرکرے پکوڑوں کے ساتھ بلور ہاتھوں سے بنائی چائے☕۔۔۔۔۔۔!

‏خُوبصورت و رُومانوی سہ پہر میں آنگن میں بکھری و رچی بسی ہوئی سُوجی کی سوندھی سوندھی دلفریب مہک۔۔۔۔۔۔!

جاڑے کی ٹھٹھرتی خُنک سہ پہر میں بھی اس پری تمثال ماہ وش کی جبین پہ آویزاں ہوتے شبنمی موتی۔۔۔۔۔۔!

گل رُخ پہ ہالہ کیے سمیٹنے سے مزید بکھرنے والی محوِ رقصاں ریشمی امبر زلفیں۔۔۔۔۔۔!

‏چولہے کی سرخی مائل نیلگوں آنچ سے دہکتے شہابی گال۔۔۔۔۔۔!

حلوہ کی کی گئی فرمائش پہ دل سے بناتے ہوئے ریشمی احساس۔۔۔۔۔۔!

پری تمثال کے نکھرتے صبیح حسن میں فکر کا پرتو لیے۔۔۔۔۔۔!

جھیل سی گہری شفق کے ڈورے لئے قرمزی آنکھوں میں جلتے دئیے۔۔۔۔۔۔!

یہ مہک مزید نکھرتی ہے ہر سو بکھرتی ہے اگر دل سے کوئی چیز بنائی جائے۔۔۔۔۔۔!



رات کی بھیگتی پلکوں میں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں رم جھم و برستی پھوار۔۔۔۔۔۔!

‏ہر طرف پھیلی و بکھری سیاہی میں کبھی کبھار نیلگوں امبر سے مدھم سی چمکنے والی لائٹ فضا میں ایک نیا نکھار لے آتی ہے۔۔۔۔۔۔!

ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی پھوا۔۔۔۔۔۔!

‏ہوا کے دوش پر جلترنگ بکھیرتا مُدھر نغمہ۔۔۔۔۔۔!

گھر کا آنگن 🏠

ہم دونوں 😍

چائے ☕ کا مگ تھامے۔۔۔۔۔۔!

ہاتھوں میں ہاتھ لیے 😍

 چائے ☕ کے سپ لیتے۔۔۔۔۔۔!

اس کی جبین و شہابی گالوں و سحر طاری کرتی گھنیری سیاہ امبر زلفوں پہ بکھرتے موتیوں میں جگمگاتا صبیح چہرہ۔۔۔۔۔۔!

اس کی امبر زلفوں کی بھینی بھینی مہک سے نکھرتے۔۔۔۔۔۔!

خراماں خراماں سبک رو چلتے ڈھیروں ڈھیر باتیں کرتے۔۔۔۔۔۔!

Summer School Timing Change 2024

  Summer School Timing Change 2024