Search This Blog

Thursday, May 6, 2021

ماضی کے جھروکوں سے

 ماضی کے جھروکوں سے


پہلے جب نیلگوں امبر کے سائے تلے آوارہ شوخ بدلیوں کی ٹولیاں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی بوندیں بکھیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

تو ایسے رنگین و دلفریب موسم میں تمام نصف بہتروں کے دل میں مجازی خدا (شوہر نامدار) کے لئے وصل کی تمنا کی انگڑائیاں موجزن ہو جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔!

اور کئی تو دل میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور کچھ زیادہ اوور مطلب بہت زیادہ ٹچی ہو کر نین کٹورا چھلکا کر سوزوگداز بھری کوئل آواز میں ہوا کے دوش پہ سُر بکھیرنے لگ جاتی تھیں (صنفِ کرخت قسمت کے دھنی کے ان کی سماعتیں ایسے وقت سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ہر سنگر اسی گمان و خوش فہمی میں مبتلا رہتا یے کہ اس کے کلے میں تمام سُروں کو گھول کر گھٹی دی گئی تھی۔ جب تک اسے اس کی سُریلی آواز ریکارڈ کر کے اس کی سماعتوں کے گوش گزار نہ کر دی جائیں اور پھر اس کے ساکت ہونے یا فورا سے ڈیلیٹ کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا یے) 


آئے موسم رنگیلے سہانے

جیا نہیں مانے

تو چھٹی لے کے آ جا بالما ہو

جب بہتی ندیا شور کرے

میرا دل ملنے کو زور کرے


اور ایسے موسم میں جدید آلہ گفت و شنید (موبائل) و سوشل میڈیا کی بدولت نصف بہتر فٹ سے اپنے مجازی خدا کے کان کھانے کا نادر موقع کسی طور نہیں گنواتیں۔۔۔۔۔۔!

اور انھیں کیا معلوم ان کے شوہرِ نامدار اپنی کولیگز کے ساتھ خوش گپئیوں کے ساتھ ساتھ ان پہ شعروں کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں (اس بات کو زہن سے محو کیے کہ وہ ایک عدد نصف بہتر کے مجازی خدا بھی ہیں۔خیر ایسے موقعوں پہ ایسی بے محل باتیں یاد رکھنے کی فرصت کسے) 


کہ اس موسم میں کھڑوس سے کھڑوس صنفِ کرخت بھی گوگل میں آوارہ گردی کر کے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایسے ایسے اشعار گوش گزار فرماتے ہیں (بشرطیکہ اپنی نصف بہتر سے کوسوں دور)  کہ انگشت بدنداں۔ 


ایسے موقع پہ ان کی نصف بہتر ولن کی مانند انٹری فرما کر گل و گلزار و رنگینی کو لق و دق دشت میں تبدیل کرنے میں چنداں نہیں چونکتیں۔ 


صنف کرخت اس موقع پہ سب سے پہلے صلواتیں دیتیں ہیں آلہ گفت و شنید (موبائل) و ٹیکنالوجی کو۔۔۔۔۔


ان کا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم پتھروں کے دور میں سانسیں لے رہے ہوتے اور اس وقت راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا۔ 


اس وقت کومل و نٹ کھٹ الہڑ دوشیزہ کے ہمراہ موسمی پکوانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ 


خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ سو کام کے بہانے و بزی ہونے کا بہانہ بنائیں گے۔ 

میٹنگ و کام کے برڈن کا دکھڑا سنانے بیٹھ جائیں گے۔ 

لیکن کئی نصف بہتر پہ اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی ہانکے مطلب سنائے جا رہی ہوتی ہیں۔ 

صنفِ کرخت سامنے بیٹھی ماہ پارہ و ماہ جبین صنفِ نازک کے لئے مُسکان بکھیرے دانت کچکچا ریے ہوتے ہیں۔ 

ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آلہ گفت و شنید کو دیوار میں دے ماریں یا ادھر سے ہی اپنی نصف بہتر کی صراحی دار گردن کو گھونٹ ڈالیں۔ 


خیر۔۔۔۔۔۔! 

سب سے بہتر ہتھیار کا استعمال فرماتے ہوئے سائیڈ پہ ہو کر اس کے فراق میں تڑپنے و غمِ روزگار کا شکوہ و جلدی آنے کا وعدہ اور سامنے بیٹھی دوشیزہ کے لئے گوگل سے چھان پھٹک کے نکالے اشعار چار و ناچار اپنی نصف بہتر کی سماعتوں کی نذر فرما کر گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے۔ 


نصف بہتر بھی اس موسم میں کرُکرے پکوڑے کباب فرائز کی ٹرے تل کر سکون سے بیٹھ کر سبھی کچھ اکیلے ہی نوش فرمانے لگ جاتی ہیں ۔ا

ور بعد میں اپنے طول و عرض کی وسعت کا سرے سے انکار فرما دیتی ہیں۔

کہ میں پہلے کی طرح سمارٹ و دبلی پتلی سی ہوں۔ 

بس آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔

میرے جیسی پری تمثال و سمارٹ نصف بہتر کے بجائے اب آپ کی نظر میں کوئی اور چڑیل سما گئی ہے۔ 

پھر ایسے موقعوں پہ جو کچھ سین چلتا ہے۔ 

کہانی گھر گھر کی۔۔۔۔۔۔!

وہ سبھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

کہ کچھ بال سفید اور کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔!


اب لاک ڈاؤن کا قصہ کیا سنانا سبھی ایک دوسرے سے مردمِ بیزار کیا اکتائے کیا بھاؤ کھائے بیٹھے ہیں اور صنفِ کرخت بیچارے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر ٹھنڈی آئیں بھر رہے ہیں۔

 کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے فرمائشی پروگرام کرنے سے حاتم طائی کی پشتوں پہ سو بار احسان جتا کر انھیں ملنے والی دال روٹی سے بھی جائیں گے۔

کیونکہ باہر سے کچھ آرڈر کرنے سے بھی رہے۔ 

کہیں مرغ مسلم یا کڑھائی، تکے و کباب کے چکروں میں خود ہی کہیں مرغا نہ بنے ہوں۔۔۔۔۔۔!


کچھ صنفِ کرخت کو تمام ماہ جبینوں، نازنینوں، ماہ رخوں و گل رخ و چندے آفتاب و چندے ماہتاب حسیناؤں کی یاد میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور ہر طرف اِدھر اُدھر یہاں وہاں نظر آتی اپنی نصف بہتر کو دیکھ کر مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔


یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 

No comments:

Post a Comment

Summer School Timing Change 2024

  Summer School Timing Change 2024