Search This Blog

Monday, March 7, 2022

زندگی

زندگی


زندگی بس ایسے ہی ہے۔۔۔۔۔۔


کبھی خوشیاں اتنی کہ سنبھالے نہ سنبھلیں۔

کبھی غم، دکھ، تکلیفیں، رنج و الم اتنے کہ چور چور ہو جائیں۔


کبھی اپنائیت اتنی کہ خود پر کسی ولی عہد کا گمان ہونے لگ جائے۔

کبھی بے رُخی و بے اعتنائی اتنی ملے کے اپنا آپ درخت سے گرے زرد چُرمرائے ہوئے پتے سے بھی کم تر لگے۔


کبھی کئیر اتنی ملے کے سبھی آپ کو ہاتھ کا چھالہ بنا کر رکھیں۔

کبھی حالت اس نہج پر پہنچ جائیں کہ آپ کسی بیماری سے موت کے منہ میں جا رہے ہوں اور کوئی پانی کی ایک بوند آپ کے منہ میں ڈالنے والا نہ میسر ہو۔ 


کبھی مصروفیت اتنی کہ سر کُھجھانے کی فرصت نہ ملے۔ چائے، کافی و کھانا تک ٹھنڈا ہو جائے۔

کبھی فراغت اتنی میسر کہ ایک ایک لمحہ بھاری ہو جائے۔ چند لمحے صدیوں کی مانند لگیں۔


کبھی کھانے کو اتنا کچھ میسر کہ سب تھوڑا تھوڑا چکھنے کے باوجود بھی بہت کچھ باقی رہے۔

کبھی سوکھی روٹی کا ٹکڑا تک میسر نہ ہو۔

کبھی بٹوے میں اچھے خاصے پیسے ہونے کے باوجود ایک نوالہ تک خریدنا میسر نہ ہو۔


کبھی رونقیں، محفلیں، رنگینئیاں و رعنائیاں اتنی میسر کہ ہم ان سب سے تھک جائیں۔

کبھی تنہائی اتنی میسر کہ خود پر کسی پرانی آسیب زدہ حویلی و کھنڈر کا گمان ہونے لگے۔


کبھی اس فریب میں ہم خود انوالو ہو جاتے ہیں۔

کبھی حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔

کہ ہم اس سراب کے جالے میں ریشم کے کیڑے کی مانند یہ ریشم اپنے گرد خود بننے لگتے ہیں۔

حالانکہ علم ہوتے ہوئے بھی کہ ایک دن یہ ریشم ہمارے گلے کا پھندا بن کر ہماری سانس کی ڈوری توڑ دے گا۔


‏‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎بس زندگی یہی ہے۔

کبھی کبھار سب کچھ ایک Systemized ہو کر بھی ہم ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

No comments:

Post a Comment

Summer School Timing Change 2024

  Summer School Timing Change 2024