بیچلرز سپنوں کے لامتناہی سلسلے
یا اللَّه
میری امی اتنی گرمی میں تپتے کچن میں اکیلے افطاری بناتی ہیں
انھیں جلدی سے افطاری بنانے میں ہاتھ بٹانے والی بہو عطا فرما۔
آمین ثم آمین
تمام بیچلرز Bachelor's دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آمین بولیں
آمین ثم آمین
آمین ثم آمین
اور روزے دار ہونے کی وجہ سے بار بار اس کو دہراتے ہوئے شدتِ دل سے آمین بولیں۔
تاکہ جلد از جلد قبولیت نصیب ہو۔
اور معجزات کا کیا پتا۔۔۔۔۔؟؟؟
آپ کو چند دن بعد اسی چاند رات کو اپنی شاپنگ کے ساتھ ساتھ کسی کے ساتھ شاپنگ کرنی پڑ جائے
(خیر اس بات یہ زیادہ گہرائی پہ جانے کی اور دل پہ لے جانے کی زیادہ ضرورت نہیں
کیونکہ مشرقی لڑکے ہونے کی وجہ سے مشرقیت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ایسی شاپنگ کا موقع ملنا ایسے ہی میسر ہوتا ہے۔۔۔۔
جیسے آلہ دین کا چراغ ملنا)
لیکن خیر۔۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں۔۔۔۔
اگلی چاند رات تک اپنے چاند کے ساتھ جی بھر کے شاپنگ کرنے کی اس نیک تمنا کو موخر کردیں۔۔۔۔۔۔
کیونکہ مشرقیت کے تقاضوں کی وجہ سے یہ بات تو خارج از امکان ہے یعنی کہ
ابھی بات کو ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے
اور موصوف خوش فہمیوں کے جزیروں میں ٹہل رہے ہیں۔۔۔۔۔
شاپنگ وہ بھی ان کے ساتھ۔۔۔۔۔
شاپنگ کے بعد آمنے سامنے بیٹھ کر چائے کے سپ۔۔۔۔۔
(اُف یہ منظرکشی سوچنے میں کتنی دلکش و حسین ہے۔
جب کینوس پہ رنگ بکھریں گے۔ تو کیا منظر ہو گا۔۔۔
شروع والے دنوں کے لئے دور کے پہاڑ و ڈھول سہانے کی مثال صادق آتی ہے)
شادی کے بعد بیگم موصوفہ کے ساتھ پہلی عید شاپنگ پر پھر منظر کچھ یوں ہوتا کہ
آپ کو گھر واپسی کی جلدی
اور بار بار بیگم موصوفہ کا شرماتے ہوئے منہ سے یہی نکلے گا۔۔۔۔
اُف ٹائم اتنا ہو گیا ہے۔۔۔۔
ابھی تومیں نے کچھ خریدا ہی نہیں۔۔۔۔۔
اور آپ باری باری اپنے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ کر انگشت بدنداں ہوں گے۔۔۔۔
بلکہ ہلکے سے دانت بھی کچکچا ہی جائیں گے۔۔۔۔۔
خیر گزشتہ برسوں کی جب آپ کو تنہا شاپنگ کی یاد آئے گی تو اپنے آپ کو کوسیں گے
(بلکہ تھوڑی بہت لعن طعن بھی لازمی کریں گے)
(حد ہے ویسے ایسی خوش فہمیوں کی پٹاری پہ)
حد ہی ہو گئی خوش فہمیوں کی انتہاء کی۔۔۔۔۔
ابھی بات چلی نہیں اور موصوف رخصتی کے بعد کی بھی شاپنگ پہ پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔
خیر خوش فہمیوں کے یادوں کے تانوں بانوں کے ٹوٹے سلسلے کو وہیں سے جوڑتے ہیں۔۔۔۔۔
مشرقیت کے تقاضوں کے مطابق رخصتی سے پہلے ان کے ساتھ عید شاپنگ
(مشرقیت کا ٹیگ لگانا ضروری ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہوتی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے شجر ممنوعہ ہوتے۔
حالانکہ باقی کزنز فیملی ممبرز سے بات چیت کرنے پہ مشرقیت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
لیکن مستقبل کے جیون ساتھی کی آپ میں سلام دعا۔۔۔۔
بات چیت۔۔۔۔
شجر ممنوعہ۔۔۔۔
خیر مشرقیت کی بھی اپنی ہی منطقیں ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں)
مشرقیت کے تقاضوں کے عین مطابق رخصتی سے پہلے ان کے ساتھ عید شاپنگ ایسی بات تو ناممکنات میں سے ہے
چلیں اگر بالفرض ایسا ممکن ہو بھی جاتا یے۔۔۔۔
تو
موصوفہ۔۔۔۔۔۔
اُف۔۔۔۔۔
مشرقیت کی وجہ سے نام لیتے ہوئے بار بار زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
اور پیشانی پہ نھنی بوندیں چمکنے لگتی ہیں
اور زبان لڑکھڑا کر ساتھ چھوڑ جاتی ہے)
موصوفہ کے ساتھ ان کی حفاظت کے لئے حفظِ ماتقدم کے طور پہ پوری فوج از ظفر موج بھیج دی جاتی۔
چالاک ہوشیار انتہائی کھرانٹ قسم کے ایلچی ساتھ بھیجے جاتے۔
(اور مشرقی مہمان نوازی نبھاتے ہوئے انہیں بھی مجبورا شاپنگ کروانا ہو گی بلکہ کسی فاسٹ فوڈ چین سے ان کی اچھی خاصی تواضع بھی کروانا پڑے گی
اور ایسے موقعوں پہ اپنی نئی رشتہ داری کا خیال نبھاتے ہوئے کسی بھی طرح کی کسر نہیں چھوڑیں گے)
موصوفہ سے بات چیت تو دور کی بات ان کو کن اکھیوں سے دیکھنا بھی نصیب نہیں ہو گا
کیونکہ دائیں بائیں حفاظتی دستے مقرر ہوں گے۔
(ان کے سنگ قدم سے قدم ملا کے ہواؤں میں اڑنے کی خوش فہمی سے بہتر ہے کہ آپ زمین پہ ہی رہیں۔)
اور کسی بھی چیز کی خریداری کے دوران آپ شرماتے ہوئے اور اپنی تمام ہمتیں جمع کر کے ان سے ان کی پسند کا پوچھیں گے
تو فٹ سے موصوفہ کے گرد مامور حفاظتی ایلچی دستے اپنے فرائض منصبی
(کہ خبردار جو کسی نے ایک لمحے کے لئے بھی انہیں تنہا چھوڑا / بات تو دور کہ بات سلام دعا بھی کرنے دی۔
اور چالاک ہوشیار کھرانٹ ایلچئیوں کی ڈیوٹی بھی ہوتی ہے کہ وہ پیغام رسانی کا کام سر انجام دیں گی)
بخوبی سر انجام دیتے ہوئے آپ کو ہر ایک علیحدہ علیحدہ موصوفہ کی پسند بتائیں گے۔
موصوفہ بھی مشرقیت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے خود بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوتیں کہ یہ کب مجھے کب پسند تھیں۔
بیچاری ہونٹوں پہ زبردستی کی مسکان لا کر دانت کچکچا کر بس جی جی ہی کرتی رہ جاتیں۔
کیونکہ موصوفہ کے دل و دماغ میں سختی سے بار بار کی گئی نصیحتوں کا انبار دستک دے رہا ہوتا کہ خبردار جو بات بھی کی۔۔۔۔
موصوفہ کی ان کنفیوژڈ صورتحال کو بھانپتے ہوئے آپ کی پسند پہ بات چھوڑ دی جاتی ہے۔
وہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کی ہر پسند پہ ایک پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔
آخر میں پسند حفاظتی دستہ پر مامور ایلچی ہی کرتے ہیں۔
وہ موصوفہ بھی مشرقیت کی لجائیت و تقاضوں کی وجہ سے بس دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کے رہ جائیں گے۔
گھر جا کر ایسے معاملات میں ان کی ٹانگ اڑانے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا سارا حساب کتاب چکتا کریں گی۔
اور عین ممکن بلکہ یقیناً اگلے روز موصوفہ ساری چیزوں ریپلیس کر آئیں گی۔
آپ عید کے روز دلی اطمینان کے ساتھ ساتھ خوش اور پھولے سے سما نہیں رہے ہوں گے اور نازاں ہوں گے کہ
موصوفہ نے سب کچھ آپ کی پسند (دل کے بہلانے کو خیال اچھا یے غالب ) زیب تن کئے ہوئے ہیں۔۔۔۔
ویسے جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جلد ہی آپ کے خیالی کینوس پہ فورا پانی پھر جاتا ہے
جب بے چینی و شدت انتظار کے کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد موصوفہ آپ کے سامنے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
آپ آنکھوں کو باربار جھپکتے ہیں کہ
کہیں آپ کی آنکھیں رنگوں کو پہچاننے سے دھوکا تو نہیں کھا رہیں۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ججھکتے ہوئے موصوفہ ساری بات جب آپ کے گوش گزار کرتی ہے تو۔۔۔۔
وہ جھوٹ بھی بولے تو لاجواب کر دیتا ہے۔
کی طرح بس آپ بھی اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔
چلو کوئی بات نہیں عیدی تو میری ہی طرف سے ہے۔۔۔۔
افففف۔۔۔۔۔
یہ منظر ہی کتنا سہانا و دلکش یے۔
ہاتھ فورا سے بیشتر بٹوے پہ چلا جاتا ہے کہ اپنا اے ٹی ایم کیا پورا بٹوا ہی ان کی خدمت میں پیش کر دیں۔
آخر کو یہ سب کس کے لئے ہے۔۔۔۔۔۔
یہ اور بات ہے کہ
ایک دو برس بعد بٹوے سے اے ٹی ایم زیادہ تر ادھر ادھر ہو گا اور استفسار پہ آپ لاعلمی کا اظہار کریں گے۔
کہ ان کہ پہنچ سے دور رہے۔
اور اس میں کچھ بچا رہے جو آئندہ آپ کے کام آ سکے۔ جو کہ ناممکنات میں سے ہے۔
وہ کہیں سے بھی ڈھونڈ کے لے آئیں گی اور فٹ سے طعنہ (اس وقت تک ایسی باتیں طعنہ ہی محسوس ہوتی ہیں ) آپ کی سماعتوں کے گوش گزار کریں گی۔
( آنکھوں میں نمی لا کے۔ جو کہ ایسے موقعوں پہ ان کی غزال و جھیل سی گہری آنکھون میں فورا سے بیشتر آ موجود ہوتی ہے اور ٹھنڈی آہ بھر کے) کہ پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔۔۔
شادی کے بعد پہلی عید۔۔۔۔۔۔
آپ نے اے ٹی ایم تھمانے کے بعد بٹوہ ہی مجھے تھما کہ کتنے پیار سے کہا تھا (مشرقیت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کچھ الفاظ حذف کئے جارہے ہیں۔ اور ہاں آپ ادھر اپنی شدت عشق و محبت کے مطابق ان کا استعمال کر سکتے ہیں)
کہ یہ لو میرے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ تمھارا ہی تو ہے
(ایسے موقعوں پہ غزال آنکھوں سے قیمتی موتی لڑھکانے کو موقع محل کے مطابق لازمی سمجھتی ہیں اور کچھ زیادہ جذباتیت کا اور آئندہ ایسی صورتحال پیش نہ آنے کے لئے پھوٹ پھوٹ کے رونے سے بھی دریغ نہںں کرتیں۔)
کاش۔۔۔۔!
وہ دن پھر سے لوٹ آئیں اب تو آپ کو میری زرا بھی فکر نہیں ہے مجھے یاد ہے وہ جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی شکوؤں و شکایات کا ایک دفتر آپ کے سامنے کھول دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی کے ساتھ ہی فٹ سے مطالبہ پیش ہو گا کہ اب آپ میرا خیال بالکل بھی نہیں رکھتے
اور آپ کو اب میرا زرا بھی احساس نہیں ہے
لہذا اب آپ کی سزا کے طور پہ میں اب ایک کے بجائے 3 سوٹ لوں گی۔
اور میچنگ کے ساتھ ساتھ فلاں فلاں چیزیں بھی جو کب سے پینڈنگ تھیں۔۔۔۔۔
خواتین کی شاپنگ لسٹ سے واپسی کے کئی زیادہ لدی پھندی واپس آتی ہیں
لہذا فلاں فلاں کا اندازا تو بخوبی ہو گیا ہو گا آپ کو۔۔۔۔۔
اور آپ اس وقت کو کوسیں گے جب آپ کے ذہن میں ایسا احمقانہ خرافاتی خیال آیا تھا۔
چلیں اب کیا ہوسکتا ہے۔
اب اس کی سزا تو بھگتنی پڑے گی۔۔۔
حد ہے ویسے خوش فہمیوں کی پٹاری کی بھی۔۔۔۔۔۔
شاید اسی موقع محل کی مناسبت سے غالب صاحب نے وہ مشہور زمانہ غزل کہی ہو گی۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا
بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک جا پہنچی۔
اب سب آمین بول کے لمبی تان کے سو جائیں۔۔۔۔۔
ایسا نہ ہو کہ خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلے۔۔۔۔۔۔
اور دل کے غمگین و اداس ہونے کی صورتحال سے بچنے کے لئے لمبی تان کے سو جائیں۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی آنکھ کھلے۔۔۔۔
پھر سے یہ ورد اور شدتِ دل اور دل کی گہرائیوں سے زور زور سے آمین بولیں۔۔۔۔۔
قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے کا کہاں پتا چلتا ہے۔۔۔۔۔
کیا پتا ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں کہ
ہر تہوار کے بعد جن کا دوسرا ڈے سسرال ڈے ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment