COVID-19 Vaccination Certificate
by Visiting
https://nims.nadra.gov.pk/nims/certificate
OR any
NADRA Center across PAKISTAN 🇵🇰
Processing Charges of Rs. 100/- Apply.
Created for Updated School Education Department Info. & Financial Matters Notifications, Proformas, Letters & Applications To Help HONORABLE EDUCATORS Guidelines & How to Maintain Service Book up to a Specific Service Tenure, Entries of Pay Fixation, Joining, Reliving, Transfer, Promotion, Up Gradation, Pay Scale Revised, Annual Increments Pay Charts, Pay Change Forms, Start of Pay, Fixation, Regularization, Promotion, Up-Gradation, Scale Revised & Arrears Bills
COVID-19 Vaccination Certificate
https://nims.nadra.gov.pk/nims/certificate
OR any
NADRA Center across PAKISTAN 🇵🇰
Processing Charges of Rs. 100/- Apply.
Special Allowance 25%
Of Basic Pay of 2017
اس کے مطابق آپ کی ابھی جو
Currant Basic Pay ہے۔
اس کے مطابق آپ کی Basic Salary کا 25% آپ کو Special Allowance 25% ملے گا۔
2017 کے بعد Pay Scale Revised نہیں ہوئے۔ لہذا اسی وجہ سے Basic Pay of 2017 کا ہی زکر ہو گا۔
One More thing to clear
THE PUNJAB CIVIL SERVANTS Retirement Maturity Age Amendment
THE PUNJAB CIVIL SERVANTS Retirement
(AMENDMENT) ORDINANCE 2021
یہ خوش آئند اقدام ہے۔
2 (b) Clause
"Voluntarily, On Completion of twenty five Years of Service or on attaining fifty five Years of age, whichever is later."
اب وہ اپنی رضا مندی سے، اپنی 25 سالہ سروس مکمل کر کے یا 55 سال عمر مکمل کر کے، جو بھی بعد میں آئے۔ وہ ریٹائرمنٹ لے سکتا ہے۔
پہلے اگر کسی کی 25 سال سے کم سروس ہوتی تو 60 سال پر اس کی سروس ریٹائرمنٹ میچورٹی ہوتی تھی۔
اب 55 سال ریٹائرمنٹ کی بدولت Age Rate بہتر لگے گا.
Pension, Gratuity & Other Fringe Benefits
بہتر ملیں گے۔
Pay Stages
کے حوالے سے جو سوشل میڈیاز پر جو نیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ اس میں کچھ بھی سچائی نہیں ہے۔
اور Pay Stages اس پر Effect نہیں ہوں گی۔
پیراہن تراش
اگر ہم پیراہن و قبا تراش ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
تو کرسٹل سانچے میں ڈھلے ہوئے اس بلور آبگینے کے ملبوس کی وضع قطع کو اس عمدگی سے ترتیب دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
کہ ہماری فن کاریگری کو دیکھتے ہوئے پریاں اپنے ملبوس لیے ہماری اور آتیں۔۔۔۔۔۔۔۔!
صبیح صُبح، شفق، قوس و قزح و زمرد سے رنگ لے کر ان کو اس گُل بدن کے پیراہن پہ دھنک کے رنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہم اس کے فراکوں میں گوٹہ کناری و سلمن ستاروں کی جھلمن سے ایسی ایسی نقاشی و آبگینے بکھیرتے کہ
وہ ہمارا ملبوس زیب تن کیے پہروں سبک رو خراماں خراماں اٹہلاتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہم اس پری پیکر ناز نین و پری تمثال زہرہ جبین کے پیراہن کی تراش خراش ایسے کرتے کہ
پھولوں کی قبائیں کتر کے ان سے مینا کاری کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
کلیوں سے جلترنگ بکھیرتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
گلاب، جیسمین، موتیے و گیندے کی نوخیز کلئیوں کی گلکاریوں سے وہ گل بدن پہروں مہکتا۔۔۔۔۔۔۔۔!
مخمور ہوکر سُبک رو مستانی چال چلتا۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس سرو قامت نازنین کیلئے ایسا زمرد پیراہن تیار کرتے کہ
جس سےاس کی سروقامت اور نمایاں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔!
ملبوس زیب تن کرنے سے اس کی اٹھلاہٹ وہ کام کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔!
جیسے بادِ صبا و بادِ نسیم کے مُدھر جھونکوں سے سرو جھومتے۔۔۔۔۔۔۔۔!
جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی
پاکستان معرض وجود میں آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔!
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اور مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں نے شرمندہءِ تعبیر کر دیا۔۔۔۔۔۔!
لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اس وطنِ عزیز 🇵🇰 کی طرف سر پٹ بھاگتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
LONG LIVE PAKISTAN 🇵🇰
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ زندہ باد 🇵🇰
ماضی کے جھروکوں سے
پہلے جب نیلگوں امبر کے سائے تلے آوارہ شوخ بدلیوں کی ٹولیاں ہوا کے دوش پہ محوِ رقصاں شبنمی بوندیں بکھیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔!
تو ایسے رنگین و دلفریب موسم میں تمام نصف بہتروں کے دل میں مجازی خدا (شوہر نامدار) کے لئے وصل کی تمنا کی انگڑائیاں موجزن ہو جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔!
اور کئی تو دل میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور کچھ زیادہ اوور مطلب بہت زیادہ ٹچی ہو کر نین کٹورا چھلکا کر سوزوگداز بھری کوئل آواز میں ہوا کے دوش پہ سُر بکھیرنے لگ جاتی تھیں (صنفِ کرخت قسمت کے دھنی کے ان کی سماعتیں ایسے وقت سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ہر سنگر اسی گمان و خوش فہمی میں مبتلا رہتا یے کہ اس کے کلے میں تمام سُروں کو گھول کر گھٹی دی گئی تھی۔ جب تک اسے اس کی سُریلی آواز ریکارڈ کر کے اس کی سماعتوں کے گوش گزار نہ کر دی جائیں اور پھر اس کے ساکت ہونے یا فورا سے ڈیلیٹ کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا یے)
آئے موسم رنگیلے سہانے
جیا نہیں مانے
تو چھٹی لے کے آ جا بالما ہو
جب بہتی ندیا شور کرے
میرا دل ملنے کو زور کرے
اور ایسے موسم میں جدید آلہ گفت و شنید (موبائل) و سوشل میڈیا کی بدولت نصف بہتر فٹ سے اپنے مجازی خدا کے کان کھانے کا نادر موقع کسی طور نہیں گنواتیں۔۔۔۔۔۔!
اور انھیں کیا معلوم ان کے شوہرِ نامدار اپنی کولیگز کے ساتھ خوش گپئیوں کے ساتھ ساتھ ان پہ شعروں کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں (اس بات کو زہن سے محو کیے کہ وہ ایک عدد نصف بہتر کے مجازی خدا بھی ہیں۔خیر ایسے موقعوں پہ ایسی بے محل باتیں یاد رکھنے کی فرصت کسے)
کہ اس موسم میں کھڑوس سے کھڑوس صنفِ کرخت بھی گوگل میں آوارہ گردی کر کے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایسے ایسے اشعار گوش گزار فرماتے ہیں (بشرطیکہ اپنی نصف بہتر سے کوسوں دور) کہ انگشت بدنداں۔
ایسے موقع پہ ان کی نصف بہتر ولن کی مانند انٹری فرما کر گل و گلزار و رنگینی کو لق و دق دشت میں تبدیل کرنے میں چنداں نہیں چونکتیں۔
صنف کرخت اس موقع پہ سب سے پہلے صلواتیں دیتیں ہیں آلہ گفت و شنید (موبائل) و ٹیکنالوجی کو۔۔۔۔۔
ان کا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم پتھروں کے دور میں سانسیں لے رہے ہوتے اور اس وقت راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا۔
اس وقت کومل و نٹ کھٹ الہڑ دوشیزہ کے ہمراہ موسمی پکوانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔
خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ سو کام کے بہانے و بزی ہونے کا بہانہ بنائیں گے۔
میٹنگ و کام کے برڈن کا دکھڑا سنانے بیٹھ جائیں گے۔
لیکن کئی نصف بہتر پہ اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی ہانکے مطلب سنائے جا رہی ہوتی ہیں۔
صنفِ کرخت سامنے بیٹھی ماہ پارہ و ماہ جبین صنفِ نازک کے لئے مُسکان بکھیرے دانت کچکچا ریے ہوتے ہیں۔
ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آلہ گفت و شنید کو دیوار میں دے ماریں یا ادھر سے ہی اپنی نصف بہتر کی صراحی دار گردن کو گھونٹ ڈالیں۔
خیر۔۔۔۔۔۔!
سب سے بہتر ہتھیار کا استعمال فرماتے ہوئے سائیڈ پہ ہو کر اس کے فراق میں تڑپنے و غمِ روزگار کا شکوہ و جلدی آنے کا وعدہ اور سامنے بیٹھی دوشیزہ کے لئے گوگل سے چھان پھٹک کے نکالے اشعار چار و ناچار اپنی نصف بہتر کی سماعتوں کی نذر فرما کر گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے۔
نصف بہتر بھی اس موسم میں کرُکرے پکوڑے کباب فرائز کی ٹرے تل کر سکون سے بیٹھ کر سبھی کچھ اکیلے ہی نوش فرمانے لگ جاتی ہیں ۔ا
ور بعد میں اپنے طول و عرض کی وسعت کا سرے سے انکار فرما دیتی ہیں۔
کہ میں پہلے کی طرح سمارٹ و دبلی پتلی سی ہوں۔
بس آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔
میرے جیسی پری تمثال و سمارٹ نصف بہتر کے بجائے اب آپ کی نظر میں کوئی اور چڑیل سما گئی ہے۔
پھر ایسے موقعوں پہ جو کچھ سین چلتا ہے۔
کہانی گھر گھر کی۔۔۔۔۔۔!
وہ سبھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
کہ کچھ بال سفید اور کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔!
اب لاک ڈاؤن کا قصہ کیا سنانا سبھی ایک دوسرے سے مردمِ بیزار کیا اکتائے کیا بھاؤ کھائے بیٹھے ہیں اور صنفِ کرخت بیچارے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر ٹھنڈی آئیں بھر رہے ہیں۔
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے فرمائشی پروگرام کرنے سے حاتم طائی کی پشتوں پہ سو بار احسان جتا کر انھیں ملنے والی دال روٹی سے بھی جائیں گے۔
کیونکہ باہر سے کچھ آرڈر کرنے سے بھی رہے۔
کہیں مرغ مسلم یا کڑھائی، تکے و کباب کے چکروں میں خود ہی کہیں مرغا نہ بنے ہوں۔۔۔۔۔۔!
کچھ صنفِ کرخت کو تمام ماہ جبینوں، نازنینوں، ماہ رخوں و گل رخ و چندے آفتاب و چندے ماہتاب حسیناؤں کی یاد میں ٹھنڈی آئیں بھر کر اور ہر طرف اِدھر اُدھر یہاں وہاں نظر آتی اپنی نصف بہتر کو دیکھ کر مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
سرابِ زندگی
ہم چاہے جتنا مرضی کسی کی زات کا بہت ہی اہم حصہ ہوں۔۔۔۔۔۔!
کوئی ہمارے بنا ایک پل بھی نہ رہ سکتا ہو۔۔۔۔۔۔!
ہم کسی کا سب کچھ ہوں یا کوئی ہمارے دل و دماغ میں بستا ہو۔۔۔۔۔۔!
اس کے یا ہمارے اردگرد خوشیوں، رونقوں و گہماگہمی کا سماں جب بھی میسر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!
ان لمحات و جھمئیلوں میں ہم یا وہ فراموش ہو ہی جاتے ہیں۔
اگر کسی لمحے یاد آ بھی جاتی ہے تو سر جھٹک کر ان چکا چوند روشنئیوں، رنگینئیوں و رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾
’’اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘
ایک ماں باپ کے لئے اس کا بیٹا یا بیٹی، بچوں کے لئے والدین، بھائی بہن کے لئے ان کے بہن بھائی، میاں بیوی جو ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
جن کے بنا زندگی کی رونقیں پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی ہیں۔
یہ تب تک ہی ہوتا ہے۔ جب تک سانسوں کہ روانی ہے۔
جیسے ہی سانسوں کی روانی کا ربط ٹوٹا۔۔۔۔۔۔۔
سب کچھ ختم۔۔۔۔۔۔!
اس کے بعد آپ کے وہی پیارے جو آپ کو کبھی اپنے سے اک پل بھی جدا کرنے سے بے چین و بیقرار ہو جاتے تھے۔
آپ کی واپسی کی راہیں تکتے تھے۔
آپ کی واپسی پر دیر ہو جانے سے آپ کو بار بار جلدی آنے کی تاکید کرتے تھے۔
ہمیشہ کے لئے کبھی نہ لوٹنے کے لئے آپ کو روانہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!
سب سے بڑی تلخ حقیقت۔۔۔۔۔۔!
کہ آپ کو دفنانے کے بعد کوئی آپ کے پاس ایک گھنٹہ رکنا تو درکنار چند منٹ بھی بھی نہیں رکتا۔۔۔۔۔۔!
سب جلدک سے واپسی کی راہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
کچھ آپ کے بہت قریبی تو جنازہ گاہ سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
آپ کو دفنانے تک بھی انتظار نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!
فقط چند گھنٹوں کے بعد آپ کی جدائی میں رونے کی شدت میں کمی آتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔!
وقت سب سے بڑا پھاہا ہے۔۔۔۔۔۔!
سارے زخم دکھ درد وقت کے ساتھ ساتھ مندمل کرتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
کچھ دنوں تک سب فراموش۔۔۔۔۔۔!
سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف و مشغول۔۔۔۔۔۔!
آجکل تو فوتیدگی بھی ایک ایونٹ ہے۔
گیدرنگ کا۔ سب اکھٹے ہوتے ہیں۔ سب کے ملن کا۔۔۔۔۔۔!
ادھر میت اٹھی ادھر کھانے کے دستر خوان بچھ گئے۔ اس کے بعد چائے کے دور چلتے ہیں۔ گپ شپ، ہنسی مذاق حتی کہ قہقہے تک لگانے کو مذائقہ نہیں سمجھا جاتا۔
گروپس کی شکل میں دکھ سکھ شئیر کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
پھر قل شریف کا ختم اس سے بھی بڑا ایونٹ ہوتا ہے۔
نیا جوڑا زیبِ تن کر کے زیادہ ثواب کی نیت سے شمولیت کرنا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔
دستر خوان بچھا، کھایا پیا و واپسی کی راہ سدھاری۔۔۔۔۔۔!
برس دو برس تک بمشکل کسی شادی بیاہ و ایونٹ پر آپ کی یاد میں آنسو بہا لیے جاتے ہیں وہ بھی فقط چند گھڑیوں کے لئے۔۔۔۔۔۔!
اس کے بعد وہی دنیا کی رنگینئیاں و رعنائیاں۔۔۔۔۔۔!
برس 2-3 گزرنے کے بعد کسی خوشی کے موقع پر اگر آپ یاد آ بھی گئے تو سر جھٹک کر آپ کی یاد کو محو کر کے خوشیوں میں مصروف۔۔۔۔۔۔!
مبادا خوشی کے پل آپ کی نذر نہ ہو جائیں کہیں۔۔۔۔۔۔!
لائف میں کچھ بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔!
بیشک ہر چیز کو فنا ہے۔۔۔۔۔۔!
بیگانگی و اجنبیت
ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔!
کسی کیلئے اپنا آپ سب کچھ تیاگ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
اپنا سب کچھ۔۔۔۔۔۔!
بغیر کسی پرواہ و فکر کے۔۔۔۔۔۔!
اپنی ساری خوشیاں اس کی ایک مُسکان پر وار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
اس کیلئے زندگی کی تمام خوشیوں، رنگینئیوں، رعنائیوں، ہر کسی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
ہر چیز سے بیزار۔۔۔۔۔۔!
اپنے آپ کی بھی فکر و ہوش نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔!
اس کے زرا سا روٹھ جانے پر دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
سانسیں بوجھل و اٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
تمام دنیا کی خوشیاں، رونقیں، رنگینئیاں و رعنائیاں سب بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔!
بہار بھی خزاں کی مانند معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
جیسے تپتے صحرا میں کئی دنوں سے پیاسے پھر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!
پہروں اس کے ہونٹوں پر مسکان بکھیرنے کیلئے جتنوں میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
اس کی مُسکان لوٹنے سے تب اٹکی سانس بحال ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
پھر کبھی اس کی بےاعتنائی سے ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے
کہ اس شخص سے ہم ایسے بیگانے، ایسے پتھر دل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
کہ پھر وہ چنداں بھی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔۔۔!
اس کے آنسو، اس کی تمام باتیں، اس کی کاوشیں، تمام جتن، ہزار صفائیاں و تاویلیں۔۔۔۔۔۔!
سب بے معنی، سب بیکار۔۔۔۔۔۔!
ہماری زات پر چنداں بھی اثر نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔!
Punjab New Pension Gratuity Calculation Calculator 2024 Punjab Pension Gratuity Calculation New Formula 2024 Punjab New Pension & Gr...